ماہ جبین عابد
پنجاب کے ضلع وہاڑی سے تعلق رکھنے والے صحافی ارسلان احمد راؤ نے اپنی بیٹی زہرہ کی پہلی سالگرہ پر انوکھا تحفہ دیا۔
انہوں نے اپنی بیٹی کی پہلی سالگرہ پر 100 مستحق بچیوں کو تعلیم دلانے کا اعلان کیا۔ سالگرہ کی تقریب میں جہاں کیک کاٹا گیااور خوشیاںمنائی گئیں تو وہیں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے پلے کارڈز اور پوسٹرز بھی دکھائی دے رہے تھے۔
ارسلان احمد راؤ کی شادی کو تین سال بعد بھی کوئی اولاد نہیں تھی۔ ارسلان اور ان کی اہلیہ کے لیے اولاد کے انتظار کےایک صبر آزما سفرکے بعدجب گھر میں زہرہ کی کِلکاری گونجی تو اس لمحہ نےارسلان کی زندگی بدل کررکھ دی.
ارسلان احمد نےکہاکہ معاشرے میں بیٹی کی پیدائش پر جو سوچ پائی جاتی ہے،میں اسے توڑنا چاہتا ہوں۔ زہرہ صرف میری بیٹی نہیں بلکہ سوچ میں تبدیلی کی مظہر بھی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہماری شادی کے تین برسوں میں ہماری کوئی اولاد نہیں تھی۔ تین سال بعد زہرہ پیدا ہوئی۔ خوشی کو بیان کرنا لفظوں میں ممکن نہیں لیکن شاید کوئی صاحبِ اولاد ہی بہتر بتا سکے کہ گھر میں بیٹی کا پیدا ہونا اور پھر پہلی اولاد کا آنا کس قدر خوشیاں لاتا ہے۔
ارسلان اس سے قبل بھی اپنے دوستوں کے ساتھ سماجی خدمات میںپیش پیش رہتے ہیں،وہ کہتے ہیں کہ ہم چند دوست اپنے علاقے میں غریب اور ضرورت مندلوگوں تک پہنچتے ہیں۔ ان کے لیے راشن، کپڑے یا دیگر اشیائے ضروریہ کا انتظام کرتے ہیں لیکن یہ سب ہم خاموشی سے کرتے ہیں۔ مقامی لوگوں کے علاوہ اس بارے میں صرف وہ لوگ ہی باخبر ہوتے ہیں جن کی ہم مدد کرتے ہیں یا جو اس کار خیر میں ہمارے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔
ان کی خاص توجہ علاقے میں موجود بچیوں پر تھی،جو تعلیم حاصل نہیں کر پاتیں۔ اس سے قبل بھی وہ اپنے علاقے میں کئی بچیوں کو سکول میں داخل کروا چکے ہیں اور آج وہ مختلف سکولوں میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
وہ اس حوالے سے اپنی حکمتِ عملی کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ اب تک زیادہ تر کیسز ایسے تھے جن میں سامنے تو ہم آتے تھے لیکن تعاون کوئی اور کرتا تھا۔ اگر ہمیں کوئی بچی ایسی ملتی جو سکول نہیں جا سکتی تھی یا اُسے گھر والے بھیجنا نہیں چاہتے تھے تو ہم مقامی مخیر حضرات سے رابطہ کر کے اس بچی کی تعلیم کا انتظام کروا دیتے تھے۔ کئی مخیر حضرات سکول یونیفارم، کتابیں، سکول بیگ یا دیگر سامان فراہم کر دیتے تھے تو متعدد ایسے لوگ بھی ہیں جو داخلہ فیس دیتے تھے تو یوں بچیوں کو تعلیم دلانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آ رہی تھی۔
زہرہ کی سالگرہ کی تقریب میں ارسلان نے غریب گھرانوں کی بچیوں کو بھی مدعو کیا تھا جنہوں نے ’تعلیم ہر بچی کا حق ہے‘ جیسے پلے کارڈز اُٹھا رکھے تھے۔
یہ منظر ارسلان کے لیے ایک خواب کی تعبیر تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے میری بیٹی انتہائی عزیز ہے۔ میں اسے پڑھانا چاہتا ہوں اور ایسی تعلیم دلوانا چاہتا ہوں جو اس کا حق ہے۔
اس سوچ کے ساتھ ارسلان احمد نے اپنی بیٹی کی سالگرہ کو منفرد طریقے سے منانے کا عزم کیا۔ انہوں نے اپنی بیٹی کی سالگرہ مناتے ہوئے ایک ویڈیو ریکارڈ کی تاکہ ان کا پیغام عام ہو۔
انہوں نے بتایا کہ ’وہ اپنی بیٹی کی پہلی سالگرہ کی خوشی میں 100 مزید بچیوں کی تعلیم کا بندوبست کریں گے۔
ارسلان کا کہنا تھا کہ میں چاہتا ہوں کہ یہ مسکان ہر اس بچی کے چہرے پر نظر آئے جو وسائل کی کمی کے سبب سکول نہیں جا پاتی۔
اس اعلان کے بعد اب تک ارسلان احمد نے 70 بچیوں کو سکول میں داخلہ دلوایا ہے۔ اس حوالے سے وہ بتاتے ہیں کہ ہم نے اس سے پہلے بھی کئی بچیوں کی فہرست تیار کی تھی اور ہم نے صرف اپنے علاقے کی ہی نہیں بلکہ اور علاقوں کی بچیوں کی تعلیم کا بندوبست بھی کیا ہے۔ میری کوشش ہے کہ جب تک زندہ ہوں اور استطاعت رکھتا ہوں تو ان کا تعلیمی سفر جاری رکھ سکوں۔ شاید میں مڈل تک یا پھر میٹرک اور انٹر تک تعلیم میں معاونت فراہم کر سکوں۔
100 بچیوں کی تعلیم ارسلان احمد کس طرح سپانسر کریں گے؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’ان کی حکمت عملی تبدیل نہیں ہوئی۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم 70 بچیوں کا سکول میں داخلہ کروا چکے ہیں۔ کئی کیسز میں سکول کی جانب سے ہی ہماری درخواست پر ان کی فیس بھی معاف کی گئی تو ہم نے سکول یونیفارم، کتابیں وغیرہ خرید کر دیں جب کہ شہر سے باہر متعدد بچیوں کو ہم نے اپنی ذمہ داری پر ایک سپانسر فراہم کیا۔ ہمارے ساتھ کئی پروفیسرز بھی رابطے میں ہیں جو اس سرگرمی میں ہماری معاونت کر رہے ہیں۔‘
ارسلان احمد نے اگرچہ اب تک 70 بچیوں کی تعلیم کا بندوبست کیا ہے لیکن ان کا عزم ہے کہ انہوں نے 100 بچیوں کو ہر حال میں سکول کی دہلیز پر پہنچانا ہے۔