Untitled 2025 06 12T172624.755

بچوں سے مشقت کے خاتمے کا عالمی دن: بچپن بچائیے، مشقت روکیے

صفوراامجد

ہر سال 12 جون کو دنیا بھر میں یوم انسداد چائلڈ لیبر منایا جاتا ہے۔ تاکہ عالمی سطح پر بچوں سے مشقت کروانے جیسے سنگین عمل کے خلاف لوگوں میں شعور بیدار کیا جا سکے ۔ اس دن کا مقصد لوگوں کی توجہ اس سنگین خطرے کی طرف مبذول کروانا ہے جو کہ مستقبل کے لیے بڑا خطرہ ہے ۔ چائلڈ لیبر سے بچے نہ صرف اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہوتے ہیں بلکہ ان کا مستقبل بھی تاریکی میں ڈوب جاتا ہے۔ بین الاقوامی مزدور تنظیم نے 2002 میں یہ دن منانے کا آغاز کیا تاکہ حکومتوں، اداروں اور عوام میں شعور بیدار کیا جاسکے۔ Untitled 2025 06 12T172646.124

اقوام متحدہ اور دیگر ادارے چائلڈ لیبر کے لیے مختلف اقدامات کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی 2021 کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 16 کروڑ بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں جن میں سے تقریباً 8 کروڑ بچے کیمیکل فیکٹریوں میں کام کرنے جیسے خطرناک کاموں سے منسلک ہیں۔چائلڈ لیبر کا سب سے زیادہ شکار براعظم افریقہ ہے ، جہاں ہر پانچ میں سے ایک بچہ مشقت کرتا ہے اس کے علاوہ رپورٹ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ 19 – COVID کے بعد چائلڈ لیبر میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ کیونکہ بہت سے خاندانوں کی آمدنی میں واضح حد تک کم ہوئی ہے۔

اسی طرح پاکستان میں چائلڈ لیبر ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ تقریباً 1 کروڑ 22 لاکھ سے زائد بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں۔ عموماً بچے ہوٹلوں، ورکشاپس اور اینٹوں کے بھٹوں پرکام کرنے پر مجبور ہیں۔آئین پاکستان کے مطابق کوئی بچہ جبری مشقت نہیں کرے گا۔ ہر بچے کو مفت اور لازمی تعلیم ملے گی۔

بچوں کی ملازمت کے قانون 1991ء کے مطابق 14 سال سے کم عمر بچے کو کام کرنے کی اجازت نہیں۔ اگر کوئی بچہ خطرناک جگہوں پر کام کرتا ہے تو مالک کے خلاف مقدمہ ہو سکتا ہے حکومت پاکستان نے ہوٹلوں، ورکشاپوں اور بھٹوں پر بچوں کا کام کرنا غیر قانونی قرار دیا ہے۔

چائلڈ لیبر کی بنیادی وجوہات میں والدین کی کم آمدنی، تعلیم کا فقدان اور ثقافتی و روایتی عوامل شامل ہیں ۔ بہت سے علاقوں میں بچوں کا کام کرنا ایک معمول سمجھا جاتا ہے ۔ اسی طرح قوانین ہونے کے باوجود عملدرآمد نہ ہونا بھی بنیادی وجہ ہے ۔
Untitled 2025 06 12T172656.684
چائلڈ لیبر سے بچوں کی نہ صرف ذہنی و جسمانی صحت خراب ہوتی ہے بلکہ وہ اپنے بچپن سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ نہ تو تعلیم حاصل کر سکتے ہیں نہ ہی بہتر مستقل کے مواقع میسر آتے ہیں اور احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔بچے خطرناک حالات میں کم اجرت پر گھنٹوں تک کام کرتے ہیں۔طویل گھنٹوں تک کام اور خطرناک ماحول بھی بچوں کی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔

جب ایک بچہ اپنے ہاتھوں سے کتاب کی جگہ اینٹ، برتن یا اوزار اٹھاتا ہے، تو صرف اس کا بچپن نہیں چھنتا، بلکہ انسانیت کی پیشانی پر شرم کا داغ لگتا ہے۔ جن آنکھوں میں خواب ہونے چاہییں، وہاں تھکن، خوف اور خاموش چیخیں بسی ہوتی ہیں۔چائلڈ لیبر صرف بچوں سے مشقت نہیں، بلکہ ان سے ان کا بچپن ان کی مسکراہٹ، ان کا سکون اور ان کا مستقبل چھین لینے کا دوسرا نام ہے۔

چائلڈ لیبر صرف بچوں کے مستقبل کا قاتل نہیں بلکہ قوم کی ترقی کی راہ میں بھی رکاوٹ ہے۔ ہمیں ان بچوں کے ہاتھوں سے اوزار نکال کر قلم پکڑانی ہوگی کیونکہ ایک ترقی یافتہ نسل ہی ترقی یافتہ معاشرے کی ضمانت ہے۔

Untitled 2025 05 11T003709.473
صفورا امجد، ویمن یونیورسٹی ملتان کے شعبہ ابلاغ عامہ کے آٹھویں سمسٹر کی طالبہ ہیں۔ میڈیا، مواصلات اور سماجی مسائل کے بارے میں پرجوش ہونے کے ساتھ، وہ کہانی سنانے اور صحافت کے ذریعے بیداری اور تبدیلی لانے کے لیے اپنی آواز کا استعمال کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں