فرزانہ کوثر
انسان کے پاس کوئی بھی فیصلہ لینے کیلئے سوچ وچار کے دو مرکز ہیں ایک دل اور دوسرا دماغ۔۔۔۔عام طور پر ہم لوگ یہ سنتے رہتے ہیں کہ میرا دل کہتا ہے کہ میں ایسے کروں ۔۔۔ یا ایسے نہ کروں وغیرہ۔اپنی من مرضی کیلئے ہمیشہ ہم دل کا حوالہ ہی دیتے ہیں ۔بعض دفعہ ہم دل کے ہاتھوں اسقدر مجبور ہوجاتے ہیں کہ لاکھ کسی کے سمجھانے سے بھی باز نہیں آتے۔بعض معاملات میں نفع نقصان سے بھی انسان بے پروہ ہوجاتا ہے۔سننے میں اتا ہے کہ یہ سب میرے بس میں نہیں ۔۔۔۔دل کا کیا کریں۔۔۔۔
بہت سوچا کہ یہ سب معاملہ کیا ہے؟
انسان جسم کے اس چھوٹے سے حصہ کے سامنے اتنا بے بس کیسے ہوسکتا ہے دل کیسے ہمارے خیالات و سوچ تک کو قید کر لیتا ہے اگر واقعی ایسا ہے تو یہ تو جسم کے حصوں کا سردار ہوا۔کسی سے سنا کہ اپ دل کے معاملے کو سمجھنا چاہتے ہیں تو اپ دیکھ لیں کہ اگر کسی کے دل میں کوئی سما جائے تو ساری دنیا بھی اس کے آس پاس پھیل جائے اسے ان سب سے کوئی سروکار نہیں ہوگا ۔۔۔۔ایسے انسان کی نظر بس ایک اسی شخص کی تلاش میں ہو گی باقی سب سے لاتعلق اور بے پرواہ۔
میں نے جب اس نقطہ نظر سے دل کو سوچا تو مجھ پر واقعی دل کی اہمیت اشکار ہوئی کہ یہ دل ایسا ہی ہوگا، کیونکہ قرآن پاک میں قلب کو بڑی اہمیت حاصل ہےقرآن پاک میں 70 بار دل کا ذکر ایا ہے جیسے ڈرنے والے۔۔نرم دل ۔۔سخت دل۔۔۔۔قلب سلیم۔۔۔قلب مطمئن ۔۔۔قلب منیب۔۔۔
ایسے میں سوچیں جب قرآن کے نازل کرنے کی بات آتی ہے تو پہاڑ کے ریزہ ریزہ ہونے کی بات آتی ہے جبکہ وہی قرآن نبی آخر زمان صلی وسلم کے قلب اطہر پر نازل کیا گیا(حوالہ ۔۔سورہ بقری ایت نمبر97) قارئین اب اس دل کی اہمیت بالا آیت سے ہی واضح ہے، دل کو حقیقتا ایک اعلیٰ مقام حاصل ہے۔۔۔۔اب اگر اس دل میں اللہ پاک کی حب سما جائے تو پھر تصور کریں کہ ساری دنیا کے افراد ہی کیا ۔۔۔۔ساری کائنات کے خزانے اور راز بھی آشکار ہوجائیں تو سب بے وقعت ہوجائے۔۔۔۔ایسا ہی ہوا ہوگا، جب آپ صلی وسلم کو قریش کے وفد نے کہا ہوگا کہ اپ جو چاہیں لیں لے مگر اللہ کی واحدانیت کی تبلیغ چھوڑ دیں ۔۔۔۔تبھی تو آپ نے دنیا کو حیران کن جواب سے مقصد اور محبت کو سامنے رکھتے ہوئے فانی ہونے والی اشیاء کو ٹھکراتے ہوئے رد کیا ۔۔۔۔اسی لئے دل میں بس ایک ہی ذات سمائی ہوئی تھی باقی سب صفر کر دیا۔۔۔۔
دل کے معاملات واقعی سمجھ سے بالا تر ہیں۔۔۔،کہیں کوئی حبشی موذن رسول بن جاتا ہے اور زید بن حارث غلام بن کر شان پالیتے ہیں یہ سب دل کے معاملہ پر منحصر ہے۔
دل کبھی کسی کی سمجھ میں نہیں آیا بس اللہ جسے راہ دیکھا دے۔۔۔بلھے شاہ نے بھی کیا خوب کہا ۔۔۔
دل دریا سمندروں ڈونگھے۔۔۔۔
کون دلاں دیاں جانے ھو۔۔۔۔۔
بالکل صحیح کہا ہم کسی کے بھی دل کامعاملہ نہیں جان سکتے۔۔۔۔۔دل میں کون بس رہا ہے ۔۔۔۔۔اور کون کہاں کھڑا ہے اور جانا کہاں ہے منزل تک پہنچنے کیلئے کب کونسی موڑ آگئی۔،۔۔کب اور کہاں رکنا اور چلنا ہے یہ سب دل کے سمندر میں موجزن ہوتا ہے۔۔۔۔۔
انسان خود بھی کبھی دل کو اپنی مرضی سے راستہ سجھا سکتا ہے؟
سب جان کر تو یہی سمجھ آتا ہے کہ دل جیسے پورے جسم میں خون کی گردش کنٹرول کئے ہوئے ہے اسی راستہ دل اپنے فیصلے کروانا اور منوانا بھی جانتا ہے اور اسے یہ اختیاریقینا اللہ پاک نے اسکی مسلسل مشقت کے باعث عطا کیا ہے۔
بس پھر ہم بھی اسی دل کے محتاج ہیں کہ وہ ہمارے دل میں جو دنیا ہے ۔۔۔۔جو کوئی بھی ہے ۔۔۔۔جو طمع بھی ہے اسے اپنی محبت سے اپنی رضا پر ڈال دے تاکہ ہمارا دل بھی اپنی صحیح منزل کی طرف گامزن رہے۔
اللہ پاک ہمیں اپنی محبت عطا فرمائے اور ان لوگوں کی محبت عطا فرمائے جن سے وہ محبت کرتا ہے اور ان لوگوں کی صحبت بھی عطا فرمائے جن سے وہ محبت کرتا ہے۔آمین۔