صفورا امجد
کاش میں بھی باہر چلا جاؤں !
یہ وہ جملہ ہے جو ہم ہر تیسرے انسان سے سنتے ہیں ایک ایسا خیال جو پہلے خواہش ہوتا ہے ، پھر منصوبہ اور بالآخر فیصلہ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا بہتر زندگی صرف سرحد کے اس پار ہی ممکن ہے؟
گزشتہ برس ملک چھوڑنے والوں کی تعداد تقریباً 7 لاکھ 27 ہزار سے تجاوز کرگئی تھی۔ 2025 میں نہ صرف یہ رجحان قائم رہا بلکہ ماضی کے مقابلے میں کئ گنا زیادہ بڑھ چکا ہے ۔2025 کے صرف تین مہینوں کے اندر تقریبا 1,72,000 لوگوں نے ملک کو خیر آباد کہا۔ان میں اکثریت نوجوانوں کی ہے اس کا مطلب یہ کہ وہ لوگ جنہوں نے پاکستان کو آگے لے کر جانا تھا وہ اب کہیں اور کسی اور کی سر زمین پر خواب سجا رہے ہیں ۔اگر اسی طرح نوجوان نسل ہجرت کرتی رہی تو آنے والے سالوں میں پاکستان چھوڑنے والے نوجوانوں کی تعداد ایک سنگین سطح پر پہنچ جائے گی۔
ملک میں بےروزگاری بڑھتی جارہی ہے ۔ڈگری ہاتھ میں ہے لیکن نوکری کا نام و نشان نہیں ہے۔ لاکھوں روپے لگا کر محنت سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد جب 20 ہزار کی نوکری کے لیے بھی سفارش کی ضرورت در پیش آئے گی تو کون نوجوان ایسے حالات میں اپنے خواب پورے کر سکے گا۔
ہمارا تعلیمی نظام ڈگری تو دیتا ہے لیکن طلبہ کو عملی مہارت اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ اور نوجوان گریجویشن کے بعد بھی نوکری کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں نوکری کے لیے تجربہ چاہیے اور تجربہ کے لیے نوکری۔ یہ چکر اتنا الجھ چکا ہے کہ نوجوان باہر جا کر ملازمت یا تعلیم حاصل کرنے کو فوقیت دیتے ہیں تو کچھ نوجوان روزگار اور تعلیم کے حصول کی وجہ سے نہیں بلکہ ذاتی آزادی اور محفوظ ماحول کے لیے بھی ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ بدقسمتی سے ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ بنتے جا رہے ہیں جہاں رائے دینے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح بہت سی ان کہی باتیں اور خواب دب کر رہ جاتے ہیں۔
"یار اس ملک میں رہ ہی کیا گیا ہے” یہ صرف ایک جملہ نہیں بلکہ اس ملک کے نظام پر سوالیہ نشان ہے۔ملک سے تعلیم یافتہ لوگوں کا ہجرت کرنا قومی ترقی کے لیے بھی خطرہ ہے جسے ہم Brain drain بھی کہتے ہیں. اگر ایسی پالیسیاں بنائی جائیں جن میں ملک واپس آنے والوں کو مواقع اور مقام دیا جائے تو یہی ہجرت Brain Gain میں بھی بدل سکتی ہے.
اب وقت صرف سوالوں کا نہیں بلکہ عمل کا ہے. اگر ہم چاہتے ہیں کہ نوجوان دوسرے ممالک کے بجائے پاکستان کی ترقی کے لیے کام کریں تو سب سے پہلا قدم تعلیم کو ہنر سے جوڑنا ہے۔ ایسا نصاب جو مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق تیار ہو، جہاں گریجویشن صرف ڈگری نہیں بلکہ مہارت کی سند ہو. نوکری سفارش پر نہیں ، بلکہ میرٹ پر ملے. نوجوانوں کو اپنے کاروبار یا منصوبے پر عمل درآمد کے لیے معاونت میسر ہو۔ ملک میں امن، انصاف اور آزادی اظہار رائے کو یقینی بنایا جائے تاکہ نوجوان خود کو محفوظ اور با اختیار محسوس کریں۔