ہادی رضا تنگوانی
میں تونسہ شریف سے ہوں، ایک ایسا علاقہ جو صوفیاء کے علم و تصوف کی روشنی، قدرت کی خوبصورتی اور سادگی کی پہچان ہے، لیکن جب بات تعلیم کی آتی ہے، تو دل اندر سے رو پڑتا ہے۔
یہاں بچوں کو پڑھایا نہیں جاتا، صرف چپ کرایا جاتا ہے۔
سوچنے پر ڈانٹ پڑتی ہے، سوال کرنے پر مار۔ استاد کے ہاتھ میں کتاب کم اور چھڑی زیادہ ہوتی ہے۔ بچوں کی آنکھوں میں علم کی روشنی نہیں، ڈر کی دھند ہوتی ہے۔
ہم اپنے بچوں کو یہ سکھاتے ہیں کہ نمبر لاؤ، چاہے رٹ رٹ کر لاؤ۔
چاہے مار کھا کر لاؤ۔
چاہے خود کو کھو کر لاؤ۔
بس A+ چاہیے۔
اور وہ بچے، معصوم چہروں والے، روز اسکول سے آ کر ماں کو بتاتے ہیں کہ "امی آج بھی مار پڑی، مگر نمبر آ گئے”۔
لیکن ان سے پوچھو، دنیا میں کیا چل رہا ہے؟ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟ بیوروکریسی کیا ہے؟ سیاست کیسے کام کرتی ہے؟ دنیا کے مسائل، جنگیں، مظلوموں کی حالت…
تو وہ خاموش ہو جاتے ہیں۔
کیونکہ نصاب میں یہ سب نہیں ہوتا۔
وہ صرف رٹے کے ماہر بن جاتے ہیں، زندگی کے نہیں!!!!!
ہماری یہ روش صرف ایک ڈگری یافتہ، لیکن کھوکھلا معاشرہ پیدا کر رہی ہے۔ ایسے نوجوان جو ملازمت کے انٹرویو میں تو اعتماد سے بات نہیں کر سکتے، لیکن بورڈ پر ایک نمبر کم آنے پر رو پڑتے ہیں۔
تعلیم یہ نہیں ہونی چاہیے۔
تعلیم وہ ہونی چاہیے جو بچہ خود سوچ سکے، سوال کر سکے، اپنی رائے دے سکے، سچ بول سکے، دوسروں کو سمجھ سکے۔
لیکن افسوس، تونسہ شریف سمیت ملک کے بیشتر پسماندہ علاقوں کےسکولوں میں یہ سب "بےادبی” کہلاتا ہے۔
اب وقت ہے، ہم سوچیں۔
ہم اپنے بچوں کو صرف مار کر کامیاب نہیں بنا سکتے۔
ہمیں ان کی سوچ کو آزاد کرنا ہوگا۔ ان کے ذہن کو کھولنا ہوگا۔ ان کے دل کو سننا ہوگا۔
تبھی شاید ہم ایک ایسا تونسہ شریف دیکھ سکیں گے، جو صرف A+ نہیں، جو صرف کاغذوں میںملک کا سب سے خواندہ شہر نہیںکہلائے بلکہ باشعور انسان بھی پیدا کرے۔