405090 3954401 updates

سپریم کورٹ نے ہائیکورٹس کے مابین ججز تبادلہ کے بنیادی اصول سمیت دیگر کئی سوالیہ نشان اٹھا دئیے

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ ججز سنیارٹی کیس کی سماعت میں جسٹس نعیم افغان نے سوال کیا کہ ٹرانسفر ججز کے لیے بنیادی اصول کیا اور کیسے طے کیا گیا۔

سپریم کورٹ میں ججز ٹرانسفر کیس کی سماعت جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کی جس دوران اٹارنی جنرل پاکستان نے دلائل دیئے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ٹرانسفرنگ ججز کی نئی تقرری نہیں ہوئی، ججز ٹرانسفر پر آئیں ہیں تو نئے حلف کی ضرورت نہیں، سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے سنیارٹی تقرری کے دن سے شروع ہوگی۔

اٹارنی جنرل نےکہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی ججز کی سنیارٹی کا تعین اس وقت کےچیف جسٹس عامر فاروق نے کیا، جسٹس عامر فاروق سنیارٹی کے تعین میں مکمل آزاد تھے، 4 ہائیکورٹ چیف جسٹسز اوررجسٹرار کی رپورٹ میں ججز تبادلہ پرکوئی سوال نہیں اٹھایا گیا، اسلام آباد ہائیکورٹ 5 ججز کی ریپریزنٹیشن پر جسٹس عامر فاروق نے فیصلہ دیا۔

جسٹس شکیل احمد نے سوال کیا کہ سیکرٹری لاء نے ٹرانسفرنگ ججز کے حلف نہیں اٹھانے کی وضاحت کیوں دی؟ اٹارنی جنرل نے کہا وضاحت اس لئے تھی کہ ایڈوائس کی منظوری کے بعد ججزکےنوٹیفکیشن میں ابہام نہیں ہو۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ججزکی ریپریزنٹیشن اورفیصلے پردرخواست گزاروکلاء نےدلائل میں ذکرتک نہیں کیا، جسٹس شکیل احمد نے کہا کسی نے ریپریزنٹیشن اور فیصلے کو پڑھا نہ ہی دلائل دیئے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین میں آرٹیکل200 کے تحت ججز کی ٹرانسفر کی معیاد طے شدہ نہیں ہے، تبادلے والےججز کے لیے وقت مقرر کرنا آئین میں نئے الفاظ شامل کرنے جیسا ہوگا، ججز ٹرانسفر کا پورا عمل عدلیہ نے کیا ایگزیکٹو کا کردار نہیں تھا۔

جسٹس نعیم افغان نے سوال کیا کہ ٹرانسفر ججز کیلئے بنیادی اصول کیا اور کیسے طے کیا گیا؟ جسٹس ڈوگر کا لاہور ہائی کورٹ میں سنیارٹی لسٹ میں 15واں نمبر تھا، اسلام آباد ہائیکورٹ میں سینارٹی کیسے اور کس اصول کے تحت دی گئی؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب ایک جج ایڈیشنل جج کے طور پر حلف لیتاہے تو اسکی سنیارٹی شروع ہوجاتی ہے، ججزکتنا وقت اپنی ہائیکورٹس میں گزارچکے، ٹرانسفر کے بعد ان کی معیادبھی جھلکنی چاہیے، کس جج کی سنیارٹی کیا ہوگی، یہ اس ہائیکورٹ نے طے کرنا ہوتی ہے۔

جسٹس شکیل احمد نے ریمارکس دیئے کہ مستقل ججز کی تعیناتی تو جوڈیشل کمیشن کرتا ہے،کیا مستقل بنیادوں پرججز ٹرانسفر کرکےجوڈیشل کمیشن کےاختیار کو غیر مؤثر کیا جاسکتا ہے۔

گزشتہ روز سماعت پر جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا ججز ٹرانسفر کیلئے 2 ہائیکورٹس چیف جسٹس اور چیف جسٹس پاکستان نے رائے دی، ایک جج کے ٹرانسفر کے عمل میں چار درجات پر عدلیہ کی شمولیت ہوتی ہے، اگر ایک درجے پر بھی انکار ہو تو جج ٹرانسفر نہیں ہوسکتا، اگر ٹرانسفر ہونے والا جج انکار کردے تو عمل رک جائے گا۔

جج آئینی بینچ کا کہنا تھا متعلقہ ہائیکورٹس کے چیف جسٹس میں سےکوئی ایک بھی انکار کر دے تو عمل رک جائےگا، پہلے تین مراحل کے بعد چیف جسٹس پاکستان انکار کر دیں تو بھی عمل رک جائے گا، اگر سب کچھ ایگزیکٹو کے ہاتھ میں ہوتا تو الگ بات تھی، ججزٹرانسفر کے عمل میں چار جوڈیشل فورمز سے رائے لی گئی۔

اپنا تبصرہ لکھیں