ملتان: پنجاب بھر میں، اور خاص طور پر جنوبی پنجاب کے علاقوں میں صحافیوں اور میڈیا سے وابستہ افراد کو اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران سنگین نوعیت کے خطرات اور مسائل کا سامنا ہے۔ انہیں ہراساں کیا جاتا ہے، تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اغواء کیا جاتا ہے اور یہاں تک کہ قتل بھی کر دیا جاتا ہے، اور یہ سب کچھ بغیر کسی خوف یا احتساب کے ہو رہا ہے۔ اس صورتحال میں ایک مخصوص قانونی اور ادارہ جاتی نظام کی عدم موجودگی نے صحافیوں کے لیے اپنا کام انجام دینا نہایت مشکل بنا دیا ہے۔ یہ بات انسٹیٹیوٹ فار ریسرچ، ایڈوکیسی اینڈ ڈویلپمنٹ (IRADA) کے زیر اہتمام ملتان پریس کلب میں منعقدہ صحافیوں کے تحفظ سے متعلق قانونی کلینک کے شرکاء نے کہی۔
میڈیا قانون کے ماہر اور IRADA کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر، آفتاب عالم نے شرکاء کو بتایا کہ سندھ اور وفاقی سطح پر صحافیوں کے تحفظ کے لیے خصوصی قوانین بنائے جا چکے ہیں ۔ تاہم، ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں تاحال ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کے صحافیوں کے تحفظ اور احتساب سے متعلق ایکشن پلان، جس کی پاکستان نے 2013ء میں توثیق کی تھی، کے مطابق صحافیوں اور میڈیا سے وابستہ افراد کی حفاظت کے لیے خصوصی قانون سازی ضروری ہے۔
کلینک کے دوران، آفتاب عالم نے تحفظ صحافیان و میڈیا پروفیشنلز ایکٹ 2021ء کے وفاقی قانون کا خاکہ پیش کیا۔ اگرچہ انہوں نے اس قانون کو قومی سطح پر ایک اہم قدم قرار دیا، لیکن انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ "پنجاب، جو آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے اور جہاں سب سے زیادہ میڈیا ورکرز موجود ہیں، ابھی تک اپنا صحافی تحفظ قانون نہیں لا سکا۔ اس قانونی خلاء کے باعث خاص طور پر چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں کام کرنے والے صحافی شدید خطرات، دھمکیوں اور تشدد کا شکار ہیں۔”
کلینک میں شریک صحافیوں نے اپنی ذاتی روداد بیان کی کہ کس طرح انہیں نگرانی، دھمکیوں اور قانونی معاونت کی عدم دستیابی جیسے مسائل کا سامنا ہے، جو کہ اکثر غیر ریاستی عناصر کی جانب سے ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبائی سطح پر کسی فریم ورک کی عدم موجودگی کے باعث، صحافی میدان میں غیر محفوظ ہیں، بالخصوص جنوبی پنجاب کے دور دراز اور سیاسی طور پر حساس علاقوں میں رپورٹنگ کرنے والے صحافی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
کلینک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار، صحافیوں کے قانونی حقوق، خطرات کی رپورٹنگ کے طریقہ کار، اور صحافی یونینز کے فعال ہونے کی اہمیت پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ شرکاء نے اس بات پر زور دیا کہ صحافیوں کے لیے مسلسل قانونی آگاہی، سماجی معاونت، اور ہنگامی ردعمل کا نظام نہایت ضروری ہے۔
کلینک پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مقامی صحافی انیلا اشرف نے کہا، "ہم اکثر سب سے پہلے میدان سے رپورٹ کرتے ہیں، لیکن ہماری اپنی حفاظت کے لیے سب سے کم اقدامات موجود ہیں۔ ایک صوبائی قانون ہمیں تحفظ بھی دے گا اور انصاف تک رسائی بھی۔”
ملتان پریس کلب کے فنانس سیکرٹری فرحان انجم ملغانی نے کہا، "ہم نے بہت انتظار کر لیا۔ اب پنجاب میں اپنا صحافی تحفظ قانون ہونا چاہیے، اور جب تک یہ قانون نافذ نہیں ہوتا، پنجاب جرنلسٹس سیفٹی کمیٹی کا ایک جنوبی پنجاب چیپٹر ہونا چاہیے تاکہ قانون پر مؤثر عملدرآمد کو یقینی بنایا جا سکے۔”
ملتان کے صحافیوں نے صحافیوں کے تحفظ کے لیے اپنی آواز بلند کرنے اور صوبائی قانون سازی کی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ اس مقصد کے لیے ایک ورکنگ کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں ملتان پریس کلب کے جنرل سیکرٹری نثار اعوان، فنانس سیکرٹری فرحان انجم اور ایگزیکٹو ممبر انیلا اشرف شامل ہیں۔ یہ کمیٹی حکومتی اداروں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ رابطے میں رہے گی تاکہ پاکستان میں آزاد میڈیا کے لیے ایک محفوظ ماحول فراہم کیا جا سکے۔