397456 9307577 updates

4457 ارب روپے ٹیکس ریونیو کے ایک لاکھ 8 ہزار مقدمات زیرالتواء

اسلام آباد: ملک میں‌ٹیکس ریونیو کےایک لاکھ 8 ہزار سے زائد کیسز عدالتوں میں زیر التواء ہونے سے کل 4457 ارب روپےملک کی آمدنی کی وصولی اور معاشی استحکام متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

قبل ازیں‌اس امر کا انکشاف 7 نومبر 2024ء کو سپریم کورٹ کے اجلاس کے بعد سامنے آیا، جو چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کی صدارت میں منعقد ہوا، جس کے بعد سفارشات کےلیے ایک کمیٹی قائم کردی گئی۔

اجلاس میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور وزارت خزانہ کے حکام نے ٹیکس آمدنی سے متعلق مقدمات کے بڑھتے ہوئے بیک لاگ کی تفصیلات پیش کیں۔

سرکاری ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں صرف ٹیکس سے متعلق 6000 مقدمات زیر التواء ہیں، جن میں اربوں روپے کی ممکنہ وصولیاں شامل ہیں۔

اسی طرح، مختلف ٹریبونلز اور عدالتوں میں تقریباً 2 ہزار مقدمات زیر التواء ہیں،جہاں حکم امتناعی کے باعث ان رقوم کی وصولی میں کئی سالوں سے تاخیر ہو رہی ہے۔

ماہرین کے مطابق ان مقدمات کو بروقت حل نہیں کرنے سے نہ صرف قانونی رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں بلکہ ٹیکس وصولی کی کوششیں بھی متاثر ہو رہی ہیں، جس کے نتیجے میں قومی خزانے کو مالی نقصان بھی پہنچ رہا ہے۔

اس تشویشناک صورتحال کے جواب میں سپریم کورٹ نے اس معاملے کا جائزہ لینے، رکاوٹوں کی نشاندہی کرنے اور ٹیکس سے متعلق تنازعات کے فوری حل کے لیے حل تجویز کرنے کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی۔ کمیٹی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ یہ جائزہ لے کہ ٹیکس آمدنی سے متعلق مقدمات کیوں بڑھ رہے ہیں اور ان کے جلد از جلد حل کے لیے ادارہ جاتی طریقہ کار تجویز کرے۔

کمیٹی میں رجسٹرارسپریم کورٹ سلیم خان، عاصم ذوالفقار، شیر شاہ خان ، ڈی جی لا ایف بی آر اشتیاق احمد خان اور ٹیکس ماہر امتیاز احمد خان شامل ہیں۔ جو کہ کمیٹی کے کوآرڈینیٹر ہیں۔ کمیٹی کو ٹاسک دیا گیا تھا کہ وہ جائزہ لیں کہ آخر کیوں کر ریونیو سے متعلق مقدمات بڑھتے چلے جارہے ہٰیں اور ادارتی میکنزم کے حوالے سے سفارشات پیش کریں تاکہ ان کا حل تیز تر ہو سکے۔

ان ہی کوششوں کے حصے کے طور پر اس کمیٹی نے تمام اہم سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی ہے، جن میں ایف بی آر، سپریم کورٹ بار، پنجاب ٹیکس بار ایسوسی ایشن ، فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور دیگر کاروبار اور صنعت کے نمائندے شامل تھے۔

اجلاس میں موجود عہدیداروں نے باور کرایا کہ ان مقدمات کے زیر سماعت ہونے کے کام کی وجہ دراصل اعلیٰ عدلیہ میں مختص ریونیو بینچز کا نہیں ہونا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں