زین العابدین عابد
ملتان، جو برصغیر کے عظیم روحانی مراکز میں سے ایک مانا جاتا ہے، حالیہ دنوں ایک نئے ثقافتی مکالمے کا مرکز بن گیا ہے۔ آرٹس کونسل ملتان کے سامنے نصب کیے گئے "رقصِ درویش” کے مجسمے پر تنقید کی لہر نے اس مکالمے کو مزید تقویت دی ہے۔ ناقدین اسے غیر ملکی ثقافت کی نمائندگی قرار دے کر مقامی شناخت سے انحراف سے تعبیر کر رہے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ رقصِ درویش صوفی روایت کا ایک لازمی اور عالمی پہچان رکھنے والا مظہر ہے، جس کی جڑیں اسلامی روحانیت اور مولانا جلال الدین رومی کی فکر میں پیوست ہیں۔
تنقید نگاروں کی جانب سے ملتان انتظامیہ پر یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ مقامی ثقافت کو پسِ پشت ڈال کر بیرونی تہذیب کو فروغ دے رہی ہے۔ مگر یہ نقطہ نظر ایک محدود اور سطحی سوچ کی غمازی کرتا ہے۔ علم، فن اور دانش کی دنیا میں ثقافت کبھی جامد نہیں ہوتی بلکہ وقت کے ساتھ ترقی اور وسعت اختیار کرتی ہے۔ صوفی ازم خود وسعتِ قلب، برداشت، اور روحانی جستجو کا نام ہے۔
رقصِ درویش، جسے دنیا میں صوفیانہ رقص یا "سماع” کے نام سے جانا جاتا ہے، محض جسمانی حرکت نہیں بلکہ ایک روحانی کیفیت، عشقِ حقیقی کا ظاہری اظہار اور باطنی واردات کا علامتی مظہر ہے۔ اس کی جڑیں شاید مولانا جلال الدین رومی کی فکر، محبت اور وحدت الوجود کے فلسفے میں پیوست ہیں۔ قونیہ، ترکی اس روایت کا مرکز ہے جہاں آج بھی درویش سفید لباس، لمبی ٹوپی اور خاص انداز میں گردش کر کے "ذکرِ الٰہی” کی صورت اختیار کرتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ تصوف کی یہ صورت ایک بلند روحانی پس منظر رکھتی ہے، اور اس کے مقلدین دنیا بھر میں پائے جاتے ہیں، حتیٰ کہ پاکستان میں بھی، جہاں دینی مدارس، صوفی دربار، اور زکریا یونیورسٹی جیسے ادارے اس روایت کو علمی انداز میں پڑھا اور پڑھایا جا رہا ہے۔
پاکستان میں اولیاء کرام کے مزارات پر رقص و وجد، قوالی، اور صوفی موسیقی ایک روایت بن چکی ہے۔ کئی مزارات پر ایسے افراد نظر آتے ہیں جو درویشوں کی نقل میں گھومتے، ہاتھ پھیلائے وجد کرتے اور رقصِ سماع میں مصروف ہوتے ہیں۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر ہم روحانی کیفیت کے اظہار کو درباروں میں قبول کرتے ہیں، تو پھر ایک علامتی مجسمے پر اعتراض کیوں؟
یہ مجسمہ نہ تو بت پرستی کی نمائندگی کرتا ہے، نہ کسی دین یا عقیدے کا تمسخر ہے، اور نہ ہی یہ کسی غیر اسلامی شعور کا پرچار۔ بلکہ یہ محض ایک روحانی روایت کا بصری اظہار ہے۔ اگر تعلیمی اداروں میں تصوف کے ڈیپارٹمنٹ قائم کیے جا سکتے ہیں، اگر مزارات پر لوگ اسی درویش کی نقل کرتے ہیں تو پھر ایک مجسمہ — جو کہ نہ بولتا ہے، نہ حرکت کرتا ہے — محض فکری علامت کے طور پر کیوں ناقابلِ قبول ہو؟
یہ اعتراض دراصل ایک فکری الجھن کو ظاہر کرتا ہے — کہ ہم عمل کو تو برداشت کرتے ہیں، مگر علامت سے خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ شاید ہمیں مجسمے سے نہیں، اپنی فکری ناپختگی سے ڈرنا چاہیے۔ اگر ہمیں تصوف سے سچی وابستگی ہے، تو اس کے جمالیاتی اور علامتی پہلوؤں کو سمجھنے اور قبول کرنے کا حوصلہ بھی ہونا چاہیے۔
ثقافت صرف لباس یا زبان کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل فکری، روحانی اور جمالیاتی نظام ہے۔ اگر ہم تصوف کی روح کو سمجھنا چاہتے ہیں، تو پھر اس کی علامتوں کو تعصب کے بجائے تدبر کی نظر سے دیکھنا ہوگا۔ رقصِ درویش کا مجسمہ کوئی شرعی حکم نہیں، نہ ہی اسے عبادت کا درجہ دیا جا رہا ہے، بلکہ یہ ایک تاریخی روایت، ایک فکری دبستاں اور روحانیت کی تصویری جھلک ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ تنقید کرنے سے پہلے ہم اپنے تناظر کو وسعت دیں، فن کو اس کے اصل معنوں میں سمجھیں، اور روایت و جدت کے مابین ایک صحت مند مکالمے کو فروغ دیں۔ ہمیں اس دائرے سے باہر آنا ہوگا جہاں ہر نئی چیز کو "غیر ملکی” اور "غیراخلاقی” قرار دے کر رد کر دیا جاتا ہے۔
پس، اصل سوال مجسمے کا نہیں، ہمارے فکری رویے کا ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم تصوف کو صرف درباروں کی سطح پر دیکھنا چاہتے ہیں یا اسے علم، فکر اور جمال کے دائرے میں بھی سراہنا چاہتے ہیں۔ اگر جواب دوسرا ہے، تو پھر یہ مجسمہ ایک قدم ہے — اندھی تقلید سے نکل کر شعور کی طرف۔
ملتان کے شہری مسائل سمیت مختلف موضوعات پر لکھتے ہیں ۔