قمر جہاں
"خاموش رہنے والی لڑکیاں مر جاتی ہیں، بولنے والی لڑکیاں مار دی جاتی ہیں۔” کہ مصداق اسلام آباد کے سیکٹر G-13/1 میں 17 سالہ ٹک ٹاکر، سماجی کارکن اور چترال سے تعلق رکھنے والی باہمت لڑکی ثنا یوسف کو اس وقت قتل کر دیا گیا جب اُس نے ایک مرد کی "دوستی” کی پیشکش کو مسترد کیا۔ قاتل، عمر حیات عرف کاکا، جو خود بھی سوشل میڈیا پر سرگرم تھا، دو گولیاں مار کر فرار ہوا۔ 20 گھنٹوں میں فیصل آباد سے گرفتاری ضرور ہو گئی، لیکن سوال اب بھی باقی ہےکہ کیا ہم نے کچھ سیکھا؟
سوشل میڈیا پر ثنا کے ویڈیوز، لباس، اور طرزِ زندگی پر کمنٹس کی بوچھاڑ تھی:
"ایسی لڑکیاں خود دعوت دیتی ہیں۔”
"اس کے ویڈیوز دیکھے ہیں؟ یہ تو ہونا ہی تھا۔”
"غلطیوں کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔”
یہ جملے ہمارے اندر چھپی ہوئی زہریلی مردانگی، ملکیت پسندی اور عورت کو محض جسم اور عزت کے پیمانے سے ماپنے والے معاشرتی رویے کو بے نقاب کرتے ہیں۔ ہم ہر بار انکار پر قتل کو جواز دیتے ہیں، اور قاتل کے بجائے مقتولہ پر انگلی اٹھاتے ہیں۔
ثنا: صرف ایک ٹک ٹاکر نہیں، ایک نظریہ تھی، جس کے 7 لاکھ سے زائد فالوورز رکھنے والی ایک باشعور، تعلیم یافتہ اور ثقافتی شناخت کی علمبردار لڑکی تھی۔ اس کا تعلق چترال جیسے نسبتاً پسماندہ علاقے سے تھا، لیکن اس کے خواب بڑے تھے۔ وہ خواتین کی تعلیم، شناخت، اور آزادی کے حق میں آواز بلند کرتی تھی۔
لیکن پاکستان جیسے سماج میں، جہاں عورت کی خاموشی کو شرافت اور خوداعتمادی کو بغاوت سمجھا جاتا ہے، ایسی لڑکیاں اکثر معاشرتی انا کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔
پاکستان میں عورتوں کے تحفظ کے لیے کئی قوانین موجود ہیں، جن میںاینٹی ریپ ایکٹ 2021ء، کام کرنے کی جگہ پر ہراساں کرنے سے تحفظ کا قانون 2010ء، گھریلو تشدد سے بچاؤ کا قانون 2012ء، چائلڈ میرج ریسٹرینٹایکٹ 2024ء، جس کے تحت اسلام آباد میں شادی کی عمر 18 سال مقرر کی گئی، تاہم، ان قوانین پر عملدرآمد نہایت کمزور ہے۔
سال 2024ء میں 392 خواتین "غیرت” کے نام پر قتل ہوئیں، 5,339 ریپ کیسز، 24,439 اغوا، اور 2,238 گھریلو تشدد کے کیسز رپورٹ ہوئے، ان سب میں سزا کی شرح صرف 0.5% رہی، یہ صرف اعداد و شمار نہیں — یہ نظام کی ناکامی کا فرد جرم ہے۔
ماہرین کی رائے میں ثنا یوسف جیسے کیسز میں اصل چیلنج قانون کی غیر مؤثر عملداری ہے۔ جب تک انکار کو ‘اکسانا’ سمجھا جاتا رہے گا، انصاف ادھورا رہے گا۔ ہمیں پولیس اور عدلیہ میں صنفی تربیت اور حساسیت لانا ہو گی۔
اس طرح سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ ہم نے ہر اُس عورت کو خاموش کیا جو بولنے کی ہمت رکھتی تھی۔ معاشرے کو اب عورت کی رضامندی، رائے، اور انکار کو عزت دینا سیکھنا ہوگا، ورنہ ثنا کے بعد بھی ثنا قتل ہوتی رہے گی۔
ہم کیا کر سکتے ہیں؟ اور ہمیںکیا کرنا چاہیے تو اس سوال کا آسان جواب یہ ہے کہ قانون پر سختی سے عملدرآمد ہو، پولیس، وکلاء اور ججز کی صنفی تربیت کی جائے، سکولوں اور میڈیا میں "رضامندی”، "انکار” اور "مردانگی” پر مکالمہ کرایا جائے، سماجی اداروں کو فعال، اور غیر رسمی جرگہ نظام کا خاتمہ کیا جائے.
یہ صرف ثنا نہیں تھی، ثنا کی خاموش چیخ صرف اُس کے حلق سے نہیں نکلی — یہ ایک پورے معاشرے کی منافقت، بزدلی اور بے حسی کا طمانچہ ہے۔
اگر ہم نے اب بھی ہوش نہ کیا،
تو کل کوئی اور لڑکی،
کسی اور ثنا کی طرح،
کسی اور عمر حیات کی انا کا شکار ہو گی۔