اسلام آباد: ہائیکورٹ،اسلام آباد میںنور فاطمہ اور دیگر نےوفاق پاکستان، کابینہ سیکرٹری اور دیگر کےخلاف رٹ پٹیشن نمبر 2667/2024دائرکی. جس کی سماعت31 جنوری کو جسٹس سرداراعجاز اسحاق خان نےکی.
درخواست گزاران کی جانب سےمحمد عثمان نواز اور عابد ثاقی ایڈووکیٹس اور حکومت کی جانب سےبیرسٹر منور اقبال دوگل ایڈیشنل اٹارنی جنرل،یاسر عرفات عباسی اور عظمت بشیر تارڑاسسٹنٹ اٹارنی جنرلز،دیگر اداروںکیجانب سےانس مشہود، قاضی عدیل عزیز، خرم محمود قریشی اور سید ندا علی ایڈووکیٹس پیش ہوئے.وکیل برائے درخواست گزارمتفرق درخواست زاہد آصف چوہدری ایڈووکیٹ،حافظ ملک مظہر جاوید ایڈووکیٹ،سرکاری افسران عدنان ارشدجوائنٹ سیکرٹری،ایم ضیاء الحق ڈپٹی سیکرٹری ایف آئی اے،وزارت داخلہ،شاہدہ سکھیرالاء آفیسر وزارت انسانی حقوق،میاں وقار احمد،قومی کمیشن برائے انسانی حقوق،سرفراز کھٹانہ ایڈیشنل ڈائریکٹر (لاء)،ایف آئی اے،ایاز خان ایڈیشنل ڈائریکٹر، ایف آئی اے،پی زی ابوبکرایس او،کابینہ پیش ہوئے.
فاضل عدالت نےعدالتی دفتر کو ہدایت کی کہ ہر آنے والی فریق بننے کی درخواست کے لیے علیحدہ فائل تیار کی جائے کیونکہ مستقبل میں مزید درخواستیں متوقع ہیں۔
عدالتی حکم میںکہا گیاہےکہ یہ درخواست گزار ان 70 ایف آئی آرز میں سےایک شکایت کنندہ ہےجو اس پٹیشن کے ساتھ منسلک ہیں اور وہ اس پٹیشن میں فریق بننے کا خواہشمند ہے۔ درخواست گزار کے وکیل کا مؤقف ہے کہ پٹیشن میں ان کے موکل پر کوئی خاص الزام عائد کیا گیا ہے، جبکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ اس پٹیشن میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ کچھ ایف آئی آرز، جن کی تفصیل نہیں دی گئی، کسی نامعلوم گروہ کے ذریعے درج کروائی گئی ہیں۔لہٰذا، درخواست گزار کا اس پٹیشن میں کوئی قانونی جواز نہیں بنتا، اور یہ درخواست مسترد کی جاتی ہے۔ تاہم، اگر آئندہ بننے والے کمیشن کو کسی شکایت کنندہ کی ضرورت محسوس ہو تو درخواست گزار اپنا مؤقف پیش کر سکتا ہے۔
مرکزی کیس میں دیئے گئے گزشتہ عدالتی حکم کی روشنی میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے آگاہ کیا کہ حکومت کمیشن بنانے کے لیے تیار ہے لیکن اس عدالت سے کچھ وضاحت اور رہنمائی درکار ہے کہ اس کمیشن کے TORs (ضوابط کار) اور تشکیل کیا ہونی چاہیے۔
عدالت میں موجود کئی وکلاء نے شکایت کنندگان کے خدشات کا اظہار کیا کہ کیا یہ کاروائی حقیقی شکایت کنندگان کی سرگرمیوں پر منفی اثر ڈالے گی، جو آن لائن گستاخی کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں؟،کیا شکایت کنندگان کو اس پٹیشن میں بطور ملزمان پیش کیا جا رہا ہے؟،پہلے خدشے کے جواب میں، عدالت نے واضح کیا کہ اس پٹیشن کا مقصد گستاخی کے قوانین پر نظرثانی نہیں ہے۔ بلکہ اس معاملے میں انصاف کے اصول کو قائم رکھنا ہے، جیسا کہ سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 8 میں بیان کیا گیا ہے:
ترجمعہ؛(تمہاری کسی قوم سے دشمنی تمہیں انصاف کرنے سے نہ روکے)
یہ پٹیشن اور مختلف رپورٹس، جیسے نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق (NHCR) اور FactFocus، اس بات کی جانچ کرنا چاہتی ہیں کہ آیا گستاخی کے قوانین کے غلط استعمال کے واقعات رونما ہو رہے ہیں یا نہیں۔
کمیشن کی ممکنہ تشکیل میںہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج،ایف آئی اے کا ریٹائرڈ سینئر افسر،ایک معروف دینی عالم جو عوامی فلاح کے کاموں میں سرگرم رہے ہوں،ایک سینئر آئی ٹی ماہر جو تکنیکی معاملات پر رہنمائی دے سکے کو شامل کیا جا سکتاہے.
کمیشن کے مقاصد میںیہ جائزہ لینا ہے کہ کیا گستاخی قوانین کا غلط استعمال ہوا ہے؟،اگر ایسا ہوا ہے تو یہ جانچنا ہےکہ یہ غلط استعمال کیسے کیا گیا اور کون ملوث ہے؟،کمیشن کی سماعتیں عمومی طور پر عوامی ہونی چاہئیں، سوائے حساس معاملات کے جہاں گستاخانہ مواد زیر بحث ہو۔کمیشن کو تفتیشی افسران کی مدد لینے کا اختیار ہوگا تاکہ ضروری تحقیقات کی جا سکیں۔
اس موقع پرایڈیشنل اٹارنی جنرل بیرسٹر منور اقبال دوگل نے وضاحت کی کہ کمیشن کی تشکیل کے لیے وزارت داخلہ کو وفاقی کابینہ کے سامنے سمری پیش کرنا ہوگی، چونکہ وزارت داخلہ اور ان کے قانونی مشیر پہلے ہی کمیشن بنانے پر رضامند ہیں،لہٰذا عدالت نے حکم دیا کہ فوری طور پر کابینہ میں سمری پیش کی جائے اور کابینہ کا فیصلہ اگلی سماعت پر عدالت میں جمع کرایا جائے۔
مزید یہ بھی تجویز کیا گیا کہ کمیشن یہ جائزہ لے کہ آیا آن لائن گستاخی کو کسی منظم طریقے سے بیرونی فنڈنگ حاصل ہو رہی ہے؟،یہ نکتہ حافظ مظہر جاوید، قاضی عدیل عزیز، اور قمر نیازی ایڈووکیٹس کی درخواست پر شامل کیا گیا، جنہوں نے عدالت کا شکریہ ادا کیا۔
مقدمہ کی آئندہ سماعت 28 فروری کو ہوگی.