Untitled 2025 05 11T175815.888

مردوں‌ کی بے حسی، ماؤں‌کو دل پر پتھر رکھنا ہو گا؟

پاکستانی معاشرے میں شادی شدہ عورت کی زندگی اکثر ایک ایسے جنگل میں داخل ہونے کے مترادف ہوتی ہے جہاں سے نکلنے کے راستے قانونی اور سماجی طور پر اس قدر پیچیدہ ہوتے ہیں کہ وہ یا تو خود کو جھکا لیتی ہے یا پھر اپنی ہی آنکھوں کے سامنے اپنی زندگی کو دفن ہوتے دیکھتی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک عورت اپنے حقوق کے لیے لڑے بغیر زندہ رہ سکے؟ کیا وہ اپنے جذبات کو مار کر، اپنی خواہشوں کو دبا کر، اپنے خوابوں کو دفن کر کے صرف اس لیے زندہ رہے کہ اسے "دل بڑا کرنا” سکھایا گیا ہے؟ یا پھر اسے "دل پر پتھر رکھ کر” اپنے بچوں کو چھوڑ دینا چاہیے تاکہ وہ مرد جو اسے زندگی سے نکال رہا ہے، اس کی تکلیف کو سمجھ سکے؟ Untitled 2025 05 11T175825.083

پاکستانی معاشرے میں شادی کے بعد عورت سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی ساری خواہشوں، خوابوں اور حقوق کو قربان کر دے۔ اگر وہ پڑھی لکھی ہے، برسرِ روزگار ہے، یا اپنی شناخت رکھتی ہے، تو بھی اسے گھر کی چار دیواری میں محدود کر دیا جاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ، جب وہ ایک یا ایک سے زیادہ بچوں کی ماں بن جاتی ہے، تو اس کے شوہر اور سسرال والے اس پر ظلم کے نئے دروازے کھول دیتے ہیں۔ کچھ مرد تو اس قدر بے حس ہوتے ہیں کہ وہ عورت کو طلاق دینے کے بجائے اسے گھر سے نکال دیتے ہیں، بچوں کو چھین لینے کی دھمکی دیتے ہیں، یا اسے معاشرتی طور پر اس قدر مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنے حق المہر، نان نفقہ، سامان جہیز اور دیگر جائز حقوق سے دستبردار ہو جائے۔

کئی مرد عورت کو طلاق دینے کے بجائے اسے "زندہ لاش” بنا دیتے ہیں۔ وہ نہ اسے آزاد کرتے ہیں، نہ اس کے ساتھ انصاف۔ عورت اگر چاہے بھی کہ وہ اپنی زندگی آگے بڑھائے، تو دوسری شادی کرنے سے پہلے اسے لاکھ بار سوچنا ہوتا ہے، کہ اس بچوں‌کا مستقبل کیا ہوگا، ماں‌اپنے بچوں‌کو سسرالی رشتہ داروں‌یا سوتیلی ماں‌کے رحم و کرم پر چھوڑنا نہیں‌چاہتی اور اولاد ساتھ رکھنے کی صورت میں‌کئی اور کٹھنائیاں‌اس کی منتظر ہوتی ہیں. اگر وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے تو سالوں تک نان نفقہ، حق مہر، جہیز کی واپسی اور بچوں کی حوالگی کے لیے دھکے کھاتی رہتی ہے۔ عدالتی نظام کی سست روی، مہنگا اور پیچیدہ قانونی عمل اسے تھکا دیتا ہے۔ وہ اپنی جوانی، اپنی خواہشوں اور اپنی صلاحیتوں کو عدالتوں کے احاطوں کے چکر، روزگار کے مسائل اور گھر کے فرائض میں گنوا دیتی ہے۔ Untitled 2025 05 11T180057.340

اگر عورت بچوں کو لے کر الگ ہو جائے، تو اسے دوہری ذمہ داریاں اٹھانی پڑتی ہیں۔ ایک طرف روزگار، دوسری طرف بچوں کی پرورش۔ معاشرہ اس پر یہ الزام عائد کرتا ہے کہ اس نے "گھر توڑ دیا”، جبکہ حقیقت میں گھر توڑنے والا وہ مرد ہوتا ہے جس نے عورت کو نکال باہر کیا۔ اگر وہ بچوں کو چھوڑ دے تو اس پر "ماں کے جذبات” کا لیبل لگا کر اسے بے درد قرار دیا جاتا ہے۔ کیا کبھی کسی نے سوچا کہ جب مرد بچوں کو اپنے پاس رکھ لیتا ہے، تو اسے بھی تو وہی مشکلات درپیش ہوتی ہیں جو عورت کو ہوتی ہیں؟ کیا وہ بھی اپنے جذبات کو مار کر، اپنی زندگی کو روک کر بچوں کی پرورش کرتا ہے؟ شاید تب ہی اسے احساس ہو کہ عورت کس قدر صبر کرتی ہے۔

سماج عورت سے کہتا ہے کہ "دل بڑا کرو”، "صبر کرو”، "تمہاری قربانیوں کا اجر ملے گا”، لیکن کیا کبھی کسی نے اس قربانی کا حساب لیا؟ اگر عورت دل پر پتھر رکھ کر اپنے بچے چھوڑ دے اور مرد کو احساس دلائے کہ بچوں کی پرورش کتنی مشکل ہے، تو شاید اسے عورت کی تکلیف کا اندازہ ہو۔ لیکن کیا یہ انصاف ہے؟ کیا عورت کو اپنے بچوں سے محروم ہو کر ہی اپنے حقوق منوانے پڑیں گے؟

Untitled 2025 05 11T175901.488پاکستان کا عدالتی نظام عورت کے لیے انصاف کے بجائے ایک نیا عذاب بن چکا ہے۔ طلاق کے معاملات میں عورتوں کو سالوں عدالتوں کے چکر لگانے پڑتے ہیں۔ نان نفقہ جیسے بنیادی حق کے لیے بھی وہ در بدر کی ٹھوکریں کھاتی ہے۔ قانون موجود ہے، لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہونے کے برابر ہے۔عدالتی احاطوں میں والدین کی ملاقات، ان کی باتیں، معصوم سوال اور زہن میں ابھرتے ہزاروں سوال ان بچوں‌ کی نفسیات پر کیا اثرات مرتب کر رہے ہیں‌اور کیا کبھی کسی قانون ساز نےسوچا کہ اگر وہ اپنی بیٹی، بہن یا ماں کی جگہ ہوتے، تو کیا وہ اسی نظام کو برداشت کر پاتے؟

عورت کو صرف "دل بڑا کرنے” یا "دل پر پتھر رکھنے” کے درمیان انتخاب نہیں کرنا چاہیے۔ اسے انصاف چاہیے، اس کے حقوق چاہیے، اس کی آزادی چاہیے۔ معاشرے اور قانونی نظام کو بدلنا ہوگا۔ عورت کو یہ حق ہونا چاہیے کہ وہ اپنی زندگی جیے، اپنے بچوں کو پالے، اور اپنے خوابوں کو زندہ رکھے۔ ورنہ ہر دوسری عورت کی کہانی "زندہ درگور” ہونے کی داستان بن کر رہ جائے گی۔

Yousf Abid
یوسف عابد

اپنا تبصرہ لکھیں