Untitled 14

عالم ارواح میں ملاقات

کاشف رضا

میں تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا جارہا تھا، آگے نہ جانے کتنی سیڑھیاں تھیں مگر قدم تھے کہ تیزی سے خود ہی آگے بڑھتے جارہے تھے۔ ان سیڑھیوں کے اختتام پہ کیا ہوگا کچھ بھی معلوم نہ تھا، مگر گھپ اندھیرے میں ایسے لگ رہا تھا کہ کوئی دوسری طرف موجود ضرور ہے جو بلا رہا ہے۔ وہ کون ہے اسکا بھی کچھ علم نہیں تھا، تاہم دل کو کچھ اطمینان سا ضرور کہ کوئی اپنا ہی ہے جو سیڑھیاں ختم ہونے پر ملے گا۔ اچانک سے سیڑھیاں ختم ہوجاتی ہیں یوں لگتا ہے جیسے کسی نے بہت گہرے گڑھے میں دھکیل دیا ہے یا پھر زبردستی کھینچ لیا ہے۔ گمان ہوا کہ ابھی تو بہت کچھ کرنا تھا بہت کچھ دیکھنا تھا کئی خواب ابھی ادھورے تھے کئی منزلوں تک پہنچنا تھا۔مگر کانوں میں غیر محسوس آواز آئی کہ یہی آخری منزل تھی،نا صرف میری بلکہ سبھی کی۔

گہرے سے گڑھے میں گر کر تھوڑا سنبھلا تو سمجھ آئی زندگی کی سیڑھیاں ختم قبر کی منزل ہے، یہ حساب کتاب کا وقت شروع، ناجانے کتنی دیر گوشوارہ زندگی کی جمع تفریق بتائی۔فارغ ہوا تو کانوں میں ایک مانوس سی آواز آئی یوں لگا کوئی بانہیں پھیلائے انتظار میں کھڑا ہے؛ کہ آجاؤ تمھارے لئے ہی تو کھڑا تھا. مانوس آواز نے نئی دنیا میں خوش آمدید کہا، اب گھپ اندھیرا اتنا نہیں تھا کہ پہچان نہیں سکتا، تھوڑا قریب ہوا تو جان کر خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا کہ سامنے ابو کھڑے ہیں، گرمجوشی سے گلے لگایا ایک دوسرے کو گلے لگا کر خوب روئے۔آخر بہت لمبی جدائی کے بعد ملاقات ہورہی تھی ویسے تو باقاعدگی سے ابو کی قبر پر جاکر ملاقات ہوتی تھی، انہوں نے دنیا میں رہ جانے والوں کا حال پوچھا تو مجھے انکے ہم نشنیوں کے بارے میں تجسس تھا کہ سب کہاں ہیں کیسے ہیں۔دادا،دادی،نانا،نانی،تایا، تائی،ماموں،بھائی،باجی اور بہت سے۔ابو نے سب کا باری باری بتانے کے بعد میری سوالیہ نظروں کی جانب دیکھا۔ابو بھی سمجھ گئے کہ نظریں کس کی تلاش میں ہیں۔کہنے لگے کہ بہت بیتابی ہے اپنے چہیتے سے ملنے کے لئے۔میں نے بھی اثبات میں سر ہلادیا کہ اب مزید انتظار مشکل ہے پہلے ہی جدائی ناقابل برداشت تھی کس لمحے اسکو یاد نہیں کیا۔

ابو نے آواز دی نہ جانے وہ نزدیک کہاں چھپا کھڑا تھا۔اپنے روایتی انداز میں”سرجی سرجی”بول کر والہانہ چیخا آگئے اوو۔ ایک دوسرے سے گلے لگ گئے دونوں طرف خوشی کے آنسوؤں کی جھڑیاں تھیں۔پتہ نہیں کتنے عرصے بعد ملاقات ہورہی تھی۔ ابو بھی بہت خوش دکھائی دے رہے تھے کہ دونوں کی بالآخر ملاقات ہو ہی گئی۔
Untitled 12
25 سالہ دوستی کی یادیں تازہ کرنے لگے وہ پہلی ملاقات جو شائد 1997ء کے اوائل میں سپورٹس گراؤنڈ میں ہوئی۔پھر 2000ء میں دوستی کے آغاز اور 2024ء تک مضبوط ترین دوستی جسکا انجام اسکی اچانک وفات پر ہوا۔دوستی کے اس طویل سفر میں روز نہ سہی مگر ہر دوسرے،تیسرے دن اسکا چہرہ دیکھنے کو ضرور مل جاتا۔ 26 مئی 2024 کو ہونے والی آخری ملاقات جو دو یا تین منٹ دورانیے کی تھی مگر 28 مئی 2024 کو اتنی ہمت ہی نہ ہوسکی کہ ابدی نیند سوئے سر جی کا آخری دیدار کر پاتا۔

عالم ارواح کی ملاقات میں سب کا ذکر تفصیل سے ہوا۔سینیئر ترین صحافیوں شوکت اشفاق، میاں غفار، ظفر آہیر، امتیاز گھمن، شکیل انجم، ناصر محمود شیخ ،عبدالرزاق شاہین، اکمل وینس، ناصر زیدی، نثار اعوان، مظہر جاوید، رانا پرویز حمید، امجد بخاری، مرزا ندیم، جمیل قریشی، ملک شہادت حسین، فرحان ملغانی، رضوان شیخ، عارف کالرو، اقبال شیخ، رؤف مان، طارق اسماعیل، یعقوب سید، شاہد لودھی، فخر الدین خان سیال، مہر رضا سیال، چوہدری اشرف جاوید، راؤ نعمان، شاہد حمید بھٹہ، یوسف عابد، نوید انجم شاہ، مرزا اعجازبیگ، احمد رضا بزدار، مظہر خان، سہیل چودھری، سید اظہر بخاری، شاہد صدیق، آغا شاہد عظیم، طارق انصاری، سعید مکول، مرزا یعقوب، وسیم خان بابر، ندیم سنی، نعیم جمال سمیت اس نے صحافتی اداروں کے تمام دوستوں، اراکین پریس کلب، اپنے بچوں، بھائیوں، فیملی ممبرز، محکمہ تعلیم، صحت کے شعبہ سے وابستہ سبھی دوستوں ڈاکٹروں، پیرا میڈیکل سٹاف، ماہرین تعلیم، اساتذہ، احباب کے بارے میں فردا فردا نام لیکر پوچھا۔
Untitled 13
تاہم کچھ دنیاوی معاملات پر وہ فکرمند نظر آیا کہ اسکے جانے سے بے ترتیبی اور زیادہ بڑھ گئی کیونکہ عالم ارواح میں سب کچھ اسے پتہ چل رہا تھا۔ کتنا وقت،گھنٹے یا دن اس ملاقات میں گذر گئے کچھ اندازہ ہی نہ ہوا۔ ابو بھی کہیں دور بیٹھ گئے کہ دوستوں کو جی بھر کر گفتگو کرنے دی جائے۔اسکا وہی مزاحیہ روایتی انداز گفتگو کہ جتنا وقت بھی کوئی اسکے ساتھ بیٹھا رہے کبھی بور نہ ہو۔ ویسے بھی 25 سالہ یادیں کہاں اس ملاقات میں سمیٹی جاسکتی تھیں، مگر ساتھ گزرے وقت کا احاطہ کئے ہی جارہے تھے۔

ملاقات میں کبھی تو وہ چٹکلے چھوڑتا اور کبھی چند سیکنڈ والے غصے میں طعنہ زنی کی برسات بھی کردیتا۔پوچھنے لگا سچ سچ بتانا مجھے کتنا مس کیا کتنا یاد کیا۔میں نے مختصرا سب احوال ایک ہی جملے میں سمیٹ دیا تجھے مس ہی کرتا تھا تو یہاں تک آیا۔لیکن یہ بات بالکل سچ ہے کسی بھی دوست نے ایک بھی دن تجھے نہیں بھلایا جب بھی کسی دوست سے ملاقات ہوئی تیرا اچھے الفاظ میں تذکرہ ہوا۔ چند دوستوں نے تو بہت شدت سے جتلایا کہ تیرے ہوتے ہیلتھ اور تعلیم کے شعبوں میں انکے لئے کوئی مسئلہ کبھی مسئلہ نہیں رہتا تھا بلکہ بھاگ بھاگ کر انکے کام کروادیتا تھا جب تو دور چلا گیا تو احساس ہوتا ہے کہ کتنے شاندار شخص کو اللہ تعالی نے ہم سے اتنی جلدی چھین لیا۔

ہم دونوں کی باتیں تو ختم ہی نہ ہوتیں،پتہ نہیں اور کب تک چلتیں۔کانوں میں الارم کی تیز آواز گونجی تھوڑا دھیان دیا تو فجر کی اذان ہورہی تھی۔سست جسم کے ساتھ اٹھا۔آنکھوں میں نمی سی محسوس ہوئی کہ دوست سے جدائی ہوچکی تھی۔نماز ادا کی دوست کے لئے دعائے مغفرت کی۔سب قصہ سمجھ آچکا تھا یہ توقیر بخاری سے عالم ارواح میں ہونے والی ملاقات تھی۔وہ توقیر جو ہم سب کا پیارا تھا، جسکے بچھڑنے پہ سب دوستوں نے کہا تھا”ہم نے ہیرا کھو دیا۔

توقیر کی زندگی مسلسل جدوجہد کا نام رہی چاہے وہ معاشی،ملازمت یا ذاتی زندگی کے مسائل سے لڑنے کی جدوجہد ہو۔وہ جدوجہد کیا تھی اسکے قریبی ترین دوستوں کو سب معلوم ہے۔دوست بھی خوب اسکا ساتھ نبھاتے رہے بلکہ ایک انتہائی حساس مسئلے میں تو ابو بھی پیش پیش رہے۔یہ مسئلہ توقیر کے لئے زندگی موت کا مسئلہ بن گیا تھا۔جو حل ہونے کے قریب تھا۔ابو اور اسکے بڑے بھائی سید نصیر حسن بخاری کی کاوشیں رنگ لارہی تھیں۔مگر پھر فرقہ وارانہ رنگ دیکر مسئلے کو بگاڑ کے نزدیک پہنچا دیا گیا۔توقیر سخت مایوس ہوچکا تھا تاہم کچھ افراد کی دانشمندی نے مسئلے کو سنبھالا۔جسکے حل ہونے پہ وہ ابو کے بہت زیادہ قریب ہوگیا تھا اور انہیں بھی پیار سے ابو جان کہا کرتا تھا۔تبھی تو عالم ارواح میں انکے ساتھ مجھے ملنے آیا کیونکہ دونوں کی وفات میں بھلے 11 سال کا فرق آیا مگر انکی روح قبض کرنے کے لئے موت کے فرشتے نے مئی کا مہینہ ہی منتخب کیا وہ بھی صرف چھ دن کے فرق سے۔

یہ محض اتفاق ہے یا ابو کی توقیر سے بیٹوں کی طرح محبت اور توقیر کی ابو سے والد کی طرح چاہت کہ دونوں مئی میں ہی اپنے رب کی طرف لوٹ گئے ۔ مئی کا مہینہ عمر بھر کے لئے یادداشت سے چپکا رہے گا۔ 26 مئی 1985ء کو دادا جان اور 22 مئی 2013ء کو ابو جان نے ہمیشہ کے لئے جدائی کا زخم دیا۔وقت واقعی بہت بے رحم ہے۔تیزی سے پر لگا کر اڑتا ہے۔28 مئی 2024ء (منگل)کو ہم سب سے سرجی جدا ہوا۔ایک سال پلک جھپکتے گذر گیا۔Untitled 10 1

توقیر کی موت کا زخم ابھی بھرا نہیں تھا کہ 2024ء میں ہی تقریبا تین ماہ بعد ایک اور گہرا زخم دل نے برداشت کرنا تھا۔ درویش صفت،مخلص،سفید پوش،خوددار اور بے ضرر دوست سینیئر صحافی عقیل قریشی بھی 22 اور 23 اگست کی درمیانی شب ہمیں چھوڑ گیا۔جسکا ہنستا مسکراتا چہرہ سب دوستوں کو یاد رہے گا۔جو دوپہر،شام یا رات میں بھی ملتا تو مسکرا کر گڈ مارننگ ہی کہتا۔دوستوں کے لئے ہر وقت حاضر رہتا۔عقیل کے درجات کی بلندی کے لئے دعائیں۔توقیر جیسا ہمدرد،مخلص اور غمگسار تو نہیں مل سکتا۔سب دوستوں کی طرف سے توقیر کو سلام،مغفرت کے لئے ڈھیروں دعائیں۔اس موقع پر ناصر کاظمی کی ایک غزل بہت یاد آرہی ہے شعر میں دانستہ”ہے”کی جگہ”تھا”استعمال کیا ہے!!!!!

دوستوں کے درمیاں وجہ دوستی تھا تو
میری ساری عمر میں ایک ہی کمی ہے تو
ناصر اس دیار میں کتنا اجنبی ہے تو
غم ہے یا خوشی ہے تو۔۔۔۔۔۔۔

Untitled 16
سید کاشف رضا سینیئر صحافی ہیں اور مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
اپنا تبصرہ لکھیں