زین العابدین عابد
پاکستان کی معیشت کا انحصار زراعت پر ہے، اور ملک کی ترقی کے لیے پانی کے مؤثر اور منصفانہ استعمال کو یقینی بنانا ناگزیر ہے۔ محفوظ شہید کینال کا منصوبہ اسی مقصد کو پورا کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے، جس کا بنیادی ہدف چولستان کی بنجر زمینوں کو زرخیز بنانا اور زرعی پیداوار میں اضافہ کرنا ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل سے پاکستان میں جدید زرعی انقلاب برپا ہونے کا امکان ہے، جو نہ صرف کسانوں کو خوشحال بنائے گا بلکہ ملکی سطح پر خوراک کی خودکفالت کو بھی ممکن بنائے گا۔
یہ نہر 176 کلومیٹر طویل ہے اور دریائے ستلج کے ساتھ ساتھ تعمیر کی جا رہی ہے۔ نہر کی پانی کی گنجائش 4,120 کیوسک ہوگی، جس سے وسیع زرعی علاقے کو سیراب کیا جا سکے گا۔ منصوبے کے پہلے مرحلے میں نہر کو سلیمانکی ہیڈورکس سے فورٹ عباس تک مکمل کیا جائے گا، جبکہ اگلے مراحل میں مزید توسیع کی جائے گی، جس میں فورٹ عباس سے دھندوالہ تک 132 کلومیٹر طویل نہر، ان اضافی منصوبوں سے نہ صرف چولستان کی زرعی صلاحیت میں بے پناہ اضافہ ہوگا بلکہ مستقبل میں مزید لاکھوں ایکڑ اراضی کو بھی قابلِ کاشت بنایا جا سکے گا۔
یہ منصوبہ صرف اور صرف پنجاب کے مختص شدہ پانی کے حصے کو استعمال کرے گا اور کسی بھی دوسرے صوبے کے پانی پر اثرانداز نہیں ہوگا۔ آبی معاہدہ 1991ء کی شق 8 کے مطابق، ہر صوبہ اپنے حصے کے پانی کو استعمال کرنے کے لیے آزاد ہے، اور اس منصوبے کو اسی اصول کے تحت شروع کیا گیا ہے۔
انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (IRSA) نے مکمل چھان بین کے بعد 4:1 کی اکثریت سے اس منصوبے کی منظوری دی اور نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ (NOC) جاری کیا۔ چونکہ ارسا میں تمام صوبوں کی نمائندگی موجود ہے، اس لیے اس کی منظوری یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ منصوبہ قومی اور بین الصوبائی قوانین کے مطابق ہے۔
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ انڈس بیسن اریگیشن سسٹم میں پہلے ہی 4.566 ملین ایکڑ فِیٹ (MAF) پانی شامل کیا جا چکا ہے، اور جیسے ہی دیامر بھاشا ڈیم (2028) اور مہمند ڈیم (2027) مکمل ہوں گے، مزید 7.08 MAF پانی دستیاب ہوگا۔ اس سے تمام صوبے، بشمول سندھ، مستفید ہوں گے۔
کچھ حلقے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ محفوظ شہید کینال کے ذریعے سندھ کے پانی پر اثر پڑے گا، لیکن یہ ایک بے بنیاد دعویٰ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سندھ کے حصے کا پانی بلکل محفوظ ہے، اور یہ منصوبہ دریائے ستلج کے اضافی پانی اور پنجاب کے مختص شدہ پانی پر مبنی ہے، جس کا سندھ سے کوئی تعلق نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ماہرین اور حکومتی ادارے اس پروپیگنڈے کو مسترد کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ یہ منصوبہ ملک کی زرعی ترقی کے لیے ایک سنگِ میل ثابت ہوگا۔ پاکستان کے زراعتی ماہرین اور معیشت دانوں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے ذریعے زرعی پیداوار میں نمایاں اضافہ ہوگا، لاکھوں کسان مستفید ہوں گے، اور روزگار کے بے شمار مواقع پیدا ہوں گے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بھارت نے 2005ء میں اندرا گاندھی کینال تعمیر کی، جس کے ذریعے راجستھان جیسے خشک اور بنجر علاقے کو قابلِ کاشت بنایا گیا۔ بھارت کی یہ پالیسی اپنے ملک کی زرعی ترقی اور خوراک کی خودکفالت کے لیے اہم ثابت ہوئی۔ اسی طرز پر محفوظ شہید کینال پاکستان کے لیے بھی ایک گیم چینجر ثابت ہوگی اور چولستان کی بنجر زمینوں کو زرعی ہب میں تبدیل کرنے کا ذریعہ بنے گی۔
محفوظ شہید کینال کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ پاکستان میں خوراک کی پیداوار میں اضافہ ہو گا، زرعی برآمدات میں وسعت آئے گی، اور کسانوں کی معاشی حالت بہتر ہوگی۔ 12 لاکھ ایکڑ بنجر زمین کو زرخیز بنائے گی، زراعت کے لیے پانی کی دستیابی میں اضافہ کرے گی،زرعی پیداوار بڑھا کر خوراک کی قلت پر قابو پانے میں مدد دے گی، ہزاروں افراد کو روزگار فراہم کرے گی، ملکی معیشت کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے تمام متعلقہ اداروں اور سیاسی جماعتوں کو قومی مفاد کو ترجیح دینی چاہیے۔ پانی اور زراعت جیسے اہم شعبے پر سیاست کرنے کے بجائے، تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ پاکستان کو زرعی اور معاشی طور پر خودکفیل بنایا جا سکے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ محفوظ شہید کینال محض ایک نہری منصوبہ نہیں بلکہ پاکستان کے زرعی مستقبل کے لیے ایک انقلابی قدم ہے۔ اس کی تعمیر سے نہ صرف زرعی زمینوں میں اضافہ ہوگا بلکہ خوراک کی پیداوار میں بھی خاطر خواہ بہتری آئے گی، جو پاکستان کی اقتصادی اور معاشرتی ترقی کے لیے ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ اگر تمام فریقین تعاون کریں اور حقائق پر مبنی فیصلہ سازی کریں، تو یہ منصوبہ پاکستان کو خوراک میں خودکفیل، کسانوں کو خوشحال، اور معیشت کو مستحکم بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔