lawyers protest 1

اسلام آباد میں وکلاءاحتجاج، ریڈ زون کے داخلی راستے بند، پولیس اوروکلاء میں جھڑپ

اسلام آباد:سپریم کورٹ میں نئے ججز کی تعیناتی کے معاملے پر جوڈیشل کمیشن کا اجلاس طلب کرنےپروکلاء نے ججز تعیناتیوں اور 26ویں ترمیم کے خلاف احتجاج کیلئے سپریم کورٹ کا رخ کرلیااور ریڈ زون کی طرف بڑھنے شروع ہوگئے،جس پولیس کی جانب سے انہیں روکنے کی کوشش کی گئی،شاہراہ دستور پر سکیورٹی کے بھاری انتظامات کئے گئے.وکلاء نے سری نگرہائی وے سرینہ چوک کو بھی بند کردیا تھا جسے خالی کرالیا گیا ہے۔ جس کے بعد وکلا نے ڈی چوک جانے کا فیصلہ کیا.سپریم کورٹ جانے والے راستے بند ہونے کے باعث عدالت عظمیٰ میں شیڈول سویلین ٹرائل کیس کی سماعت بھی ملتوی کردی گئی ہے۔

اس دوران سپریم کورٹ پولیس نے وکلاء کیلئے مختص داخلی دروازہ بند کردیا، اور وکلاء سے گفتگو میں کہا کہ ہمیں آرڈر ہے اندر نہیں جانے دینا۔ جس پر وکلاء نے کہا کہ سپریم کورٹ ہمارا گھر ہے دروازہ کھولا جائے۔

پولیس نے فاروق ایچ نائیک کو خصوصی طور پر سپریم کورٹ میں داخلے کی اجازت دے دی، جس پر انہوں نے کہا کہ وکلاءسمیت سب کو داخلے کی اجازت ہونی چاہیے، وکلاء کو عدالت میں داخلے سے نہیں روکنا چاہیے۔


دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ میں موجود وکلاءنے ڈی چوک جانے کا فیصلہ کرتے ہوئےکہاکہ وکلاءریلی کی صورت میں ڈی چوک جانے کو تیار ہیں۔اس دوران وکلاء‌اورپولیس اہلکاروں‌کے مابین تلخ‌کلامی کے ساتھ معمولی جھڑپوں‌کے واقعات بھی رونما ہوتے رہے.

دوسری جانب آل پاکستان وکلاءایکشن کمیٹی کی جانب سےشاہراہ دستور پر احتجاج کےاعلان کے بعدوکلاء کی بہت بڑی تعدادریڈ زون پہنچ گئی۔اسلام آباد میں وکلاءایکشن کمیٹی کے رہنماؤں منیر اے ملک اور علی احمد کرد نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے حکومت پر احتجاج روکنے کے لیے راستے بند کرنے کا الزام عائد کیا۔ منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ کراچی اور سندھ سے وکلا کل رات ہی اسلام آباد پہنچے تھے، مگر انہیں احتجاج سے روکنے کے لیے تمام راستے بند کر دیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا احتجاج جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے خلاف ہے اور ہم اس معاملے کو اجاگر کرنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ عدلیہ اور ریاست پاکستان پر حملے کے مترادف ہے۔

علی احمد کرد نے کہا کہ پاکستان میں اس طرح کے حالات پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔ انہوں نے 26ویں آئینی ترمیم کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں نے یہ ترمیم منظور کی، انہیں شرم آنی چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن میں من پسند ججز لانے کی کوشش کی جا رہی ہے، مگر وکلا اس فیصلے کو قبول نہیں کریں گے۔ انہوں نے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس فوری طور پر موخر کرنے کا مطالبہ کیا۔

کراچی بار کے سیکرٹری جنرل غلام رحمان نے کہا کہ ہمارا احتجاج آئین کی بحالی کے لیے ہے، کیونکہ آج ججز سیاسی حمایت حاصل کر کے فیصلے کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم آزادی صحافت کے لیے بھی آواز بلند کر رہے ہیں اور پیکا ایکٹ جیسے کالے قوانین کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

ربیعہ باجوہ نے کہا کہ شاہراہ دستور کو چھاؤنی نہیں بننے دیں گے، آج جوڈیشل کمیشن میں ملٹری بنچ بٹھایا گیا ہے، جو ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے کہا کہ وکلاء آئین اور قانون کے دفاع کے لیے سڑکوں پر نکلے ہیں اور یہ جدوجہد جاری رہے گی۔

اس موقع پرسپریم کورٹ کے باہر سیکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کئے گئےاورسپریم کورٹ کے احاطے میں بھی پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی ۔

سپریم کورٹ جانے کیلئے صرف مارگلہ روڈ کو کھلا رکھا گیا ہے جس سے اطراف میں شدید ٹریفک جام رہاہے، جبکہ جڑواں شہروں میں چلنے والی میٹرو بس سروس بھی محدود کردی گئی۔ میٹروبس سروس فیض احمد فیض تک چلائی گئی اور کشمیر ہائی وے تا پاک سیکرٹریٹ تک میٹرو بس سروس بند رہی۔

دوسری جانب ملک بھر سے وکلاء کی چھ نمائندہ تنظیموں نے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔وکلاء تنظیموں نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کے خلاف احتجاج کو مسترد کرتے ہیں، پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار، پنجاب بار کونسل، خیبرپختونخوا بار کونسل، بلوچستان اور سندھ ہائیکورٹ رز ایسوسی ایشن نے مشترکہ اعلامیہ میں کہا کہ عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔

اپنا تبصرہ لکھیں