انیلہ اشرف
جنوبی پنجاب کی ایک یونیورسٹی میںپڑھنے کےلئےدوردرازعلاقے سے آئی صوفیہ(فرضی نام) کوگذشتہ کچھ عرصہ سے متواتر غیر اخلاقی پیغامات واٹس ایپ پر موصول ہونے لگے۔ ابتداءمیں اس نے ان پیغامات کو نظرانداز کیا، لیکن جلد ہی پیغامات بھیجنے والے کا حوصلہ بڑھتا گیا۔ تنگ آکر صوفیہ نے اپنے ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ سے شکایت کی، جنہوں نے کلاس میں جا کر لیکچر دیا۔ تاہم، اگلے ہی روز ایک نئے نمبر سے پیغامات موصول ہونے لگے، جن میں صوفیہ کے حسن و صورت، لباس، قد اور چال ڈھال کی تعریف میں قلابازیاں ماری گئی تھیں۔
پریشان ہو کر صوفیہ دوبارہ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کے پاس اپنی عرضداشت لے کر پیش ہو گئی، لیکن انہوں نے طنز کیا کہ "ہو سکتا ہے کہ تمہیں یہ پیغامات میں بھیج رہا ہوں۔” یہ جواب سن کر صوفیہ مایوسی کا شکار ہو گئی اور اپنے ہوسٹل سے سامان اٹھا کر گھر واپس چلی گئی۔ تاہم، موبائل فون پر پیغامات کا سلسلہ جاری رہا، اور صوفیہ کی ذہنی پریشانی بڑھتی گئی۔تاہم اس کی ذہنی پریشانی اور خوف کم نہیں ہو پایا اور موبائل فون پر پیغامات کا سلسلہ جاری رہا کئی کئی گھنٹے میں فون اٹھاتی تک نہیں تھی۔وہ جانتی تھی یہ مسئلے کا حل نہیں ہے،تاہم وہ اپنے اندر کے خوف کو شکست دینے کی کوشش میں نڈھال تھی،سو کچھ سوچ ہی نہیں پا رہی تھی۔
ایک شام، جب صوفیہ اپنے پیارےبھائی کے لیے رات کا کھانا بنا رہی تھی، اس کے بھائی نے ایک نامعلوم نمبر سے موصول ہونے والا پیغام بلند آواز میں پڑھا۔ غصے میں آ کر اس نے فون زمین پر دے مارا اور صوفیہ کو کلہاڑی کے وار کر کے ہلاک کر دیا۔ کئی ماہ بعد، قاتل کو مقتولہ اور قاتل کے وارثان کی جانب سےمعافی مل گئی اور وہ پاکستان میںقانونی موشگافیوںکا فائدہ اٹھاتے ہوئےجیل سے رہا ہو گیا۔
یہ سلسلہ صوفیہ کے بعد ختم نہیں ہوا،جنوبی پنجاب سمیت سینکڑوں صوفیہ جیسی بچیاں کو زندگی میں آگے بڑھنے کے خواب دیکھ رہی تھیں یا تو انہیں موت کی جانب دھکیل دیا گیا یااعلیٰ تعلیم چھوڑ کر گمنامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کردیا گیا۔ملزمان کے حوصلے بھی بلند ہوتے رہے۔
صوفیہ کی کہانی جنوبی پنجاب سمیت پاکستان بھر میں سینکڑوں لڑکیوں کی کہانیوں میں سے ایک ہے۔ ڈیجیٹل تشدد خواتین اور لڑکیوں کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ عالمی سطح پر 85 فیصد خواتین نے ڈیجیٹل تشدد کا مشاہدہ کیا ہے، اور تقریباً 40 فیصد کو ذاتی طور پر اس کا تجربہ ہوا ہے۔ پاکستان میں 32 فیصد خواتین کو کسی نہ کسی تشدد کا سامنا رہتا ہے، جن میں سے نصف نے کبھی مدد نہیں مانگی۔
ڈیجیٹل تشدد پیشہ ورانہ امور اور روزگار کے لیے آن لائن اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر انحصار کرنے والی خواتین اور لڑکیوں کے کام پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے۔اس حوالے سے یو این ایف پی اے کے مطابق خواتین پر تشددکا خاتمہ وقت کی ضرورت ہے کیونکہ یو این ایف پی اے 2030 تک صنفی بنیاد پر تشدد کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے ۔یو این ایف پی اے کی رپورٹ کے مطابق تشدد کی دیگر سنگین اقسام سمیت ڈیجیٹل تشدد سےمتاثرہ خواتین کی زندگیوں اور صحت و سلامتی کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔
ڈیجیٹل تشدد میں آن لائن جنسی ہراسانی، ڈرانا دھمکانا، اور دوسروں کی تصاویر اور ویڈیوز کا ان کی رضامندی کے بغیر منفی استعمال شامل ہے۔ یہ تشدد خواتین کی ذہنی، جذباتی اور جسمانی صحت پر منفی اثرات ڈالتا ہے۔
ڈیجیٹل تشدد سےبچاؤ کے لئےآگاہی مہمات ذیادہ وسیع پیمانے پر چلائی جانے چاہئیں تاکہ عوام کو اس مسئلے کے بارے میں معلومات فراہم کی جا سکیں۔موجودہ قوانین کو مؤثر طریقے سے نافذ کیا جائے اور ان میںوقت و حالات کے مطابق ضروری ترامیم کی جائیں.خواتین اور لڑکیوں کو ڈیجیٹل تشدد کے بارے میں تعلیم دی جائے اور انہیں اس کے خلاف اقدامات کرنے کی ترغیب دی جائے۔متاثرہ خواتین کے لیے مدد کے مراکز قائم کیے جائیں جہاں وہ قانونی اور نفسیاتی مدد حاصل کر سکیں۔
خواتین اور لڑکیوں کو ہر جگہ تحفظ کا احساس ہونا چاہیے۔ ڈیجیٹل تشدد کے خلاف اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ ہمیں اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور اس کے خلاف مؤثر اقدامات کرنے چاہئیں۔