لاہور: پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کو اس امر پر تشویش ہے کہ 26-2025 کا وفاقی بجٹ ملک کے سب سے کمزور طبقوں کے معاشی اور سماجی حقوق پر شدید منفی اثرات مرتب کرے گا۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق سخت کفایت شعاری پروگرام کے تحت اپنائے گئے بجٹ نے کم آمدنی والے طبقوں کو معاشی مشکلات سے تحفظ فراہم نہیں کیا جو پہلے ہی 2022 سے 2024 تک کے مہنگائی کے طویل بحران سے نبرد آزما ہیں۔
چیئرپرسن اسد اقبال بٹ کی جانب سے جاری بیان کےمطابق اگرچہ حکومت نے تنخواہ دار افراد کے لیے انکم ٹیکس کی شرحوں میں معمولی کمی کی ہے، لیکن یہ ریلیف محنت کش طبقے کے گھرانوں کی کمزور قوتِ خرید کو بہتر کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ زیادہ پریشان کن پیش رفت یہ ہے کہ وفاقی سطح پر کم از کم اجرت میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جو کہ 37,000 روپے ماہانہ ہے یہ ایسی رقم ہے جو چھ افراد پر مشتمل خاندان کے بنیادی اخراجات پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ یہاں تک کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا جیسے صوبوں میں، جہاں کم از کم اجرت 40,000 روپے تک بڑھا دی گئی ہے، وہاں یہ اضافہ حقیقی آمدنی میں مہنگائی کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کی تلافی نہیں کرتا۔ مزید برآں، کم از کم اجرت کا عملی اطلاق بدستور غیر مؤثر ہے، سندھ میں 80 فیصد صنعتیں مبینہ طور پر کم از کم اجرت کے قوانین کی تعمیل نہیں کر رہیں اور یہی رجحان ملک بھر میں نظر آتا ہے۔
کلیدی سماجی شعبوں کے لیے مختص بحٹ — صحت (جی ڈی پی کا 0.96 فیصد)، تعلیم (1.06 فیصد)، اور سماجی تحفظ (1.1 فیصد) بین الاقوامی معیارات پر پورا نہیں اترتا اور ان شعبوں میں خطے کے دیگر ممالک کے بجٹ سے بھی کم ہے۔ اس کے برعکس، ہندوستان، سری لنکا اور بنگلہ دیش جیسے ممالک ان بنیادی سہولیات پر ہم سے کہیں زیادہ خرچ کرتے ہیں۔
آج ایچ آر سی پی کی جانب سے منعقد کی گئی ایک پریس کانفرنس کے دوران ماہرِ معیشت ڈاکٹر فہد علی نے نشاندہی کی کہ ایسے وقت میں جب پاکستان کی 45 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور 88 فیصد افراد کی ماہانہ آمدن 75 ہزار روپے، جو ایچ آر سی پی کے مطابق ایک معقول کفافی اجرت یعنی لِوینگ ویچ ہے، سے بھی کم ہے ،یہ بجٹ سماجی انصاف اور انسانی وقار کے ساتھ تشویشناک حد تک عدم وابستگی کو ظاہر کرتا ہے۔
ایچ آر سی پی کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق نے کہا کہ انہیں یہ جان کر ‘شدید مایوسی’ ہوئی ہے کہ وزیر خزانہ نے اراکین پارلیمان کی تنخواہوں میں تو ‘بے حد اور غیر متناسب اضافے’ کا اعلان کیا ہے مگر کم از کم اجرت میں اضافہ نہیں کیا۔
ایچ آر سی پی پنجاب کے وائس چیئر راجہ اشرف نے کہا کہ صحت اور تعلیم کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے، جبکہ ایچ آر سی پی کی سینئر مینیجر فیروزہ بتول نے نشاندہی کی کہ غریب دشمن بجٹ سے عورتیں غیر متناسب طور پر متاثر ہوتی ہیں۔ ایچ آر سی پی کے خزانچی حسین نقی نے کہا کہ بجٹ منظور کرنے سے پہلے اس معاملے پرمفصل بجث ہونی چاہیے تھی کہ ‘بجٹ عام شہریوں کے معاشی اور سماجی حقوق پر کیا اثرات مرتب کرے گا۔
ایچ آر سی پی وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر زور دیتا ہے کہ وہ اپنی مالی ترجیحات پر نظر ثانی کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ معاشی بحالی کے منصوبے پاکستان کے سب سے پسماندہ لوگوں کے حقوق اور ضروریات کو خاص طور پر مدنظر رکھیں۔ صحت عامہ، تعلیم اور بامعنی سماجی تحفظ کے شعبوں میں مناسب وسائل مختص کیے بغیر، مساوی شہریت کا وعدہ لاکھوں لوگوں کے لیے کھوکھلا ہی رہے گا۔ باوقار زندگی کے حق کو مالی بندشوں کے تابع نہیں کیا جا سکتا- اس حق کو مقدم حیثیت حاصل ہے۔