01 03 2025 3 29 51 pm

میرے کمرے کی کھڑکی سے

اپنے کمرے کا سکون محسوس کر پانا کسی نعمت سے کم نہیں ہے، آج کل اپنی زندگی کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے، ایک وقت ایسا تھا کہ کمرے میں پڑے رہنے سے جان جاتی تھی، اور اب کوئی کمرے سے نکلنے کا کہہ دے تو کوفت سی طاری ہو جاتی ہے۔ سین کچھ فلمی ٹائپ کا ہے،لیکن ادھر الارم بجنے والا کوئی چکر نہیں ہے، صبح آنکھ سبزی والے کی آواز پر کھلتی ہے، اٹھ کر کھڑکی سے پردہ ہٹاتی ہوں، تو سامنے فلموں کی طرح کوئی سوئمنگ پول نہیں ہوتا، بلکہ سبزی والا سبزی بیچ رہا ہے، رکشہ والا روز کی طرح آدھے گھنٹے سے اپنا رکشہ صاف کرنے میں لگا ہے،کیونکہ آج بھی سامنے والی باجی لیٹ ہو گئی ہیں، مرغے کی بانگ کی بجائے، یہاں سورج نکلنے کی نشانی، محلے کے بچوں کا ٹک ٹک والا کھلونا ہے، اور میں یہ سارا منظر اپنے کمرے کی کھڑکی سے روز دیکھتی ہوں۔

سنا ہے، دور بدل گیا ہے، لوگ گھروں سے صرف کام کی غرض سے نکلتے ہیں، آپس میں ملنا، ملانا کم ہو گیا ہے۔ امی ابو بتاتے ہیں کہ ان کے دور میں ایسا نہیں تھا، حالات آج کی نسبت کافی اچھے تھے، اور گھروں سے نکلنے میں، ٹہلنے میں، کوئی خطرے کی بات نہیں تھی۔ موبائل نہیں تھے، انٹرنیٹ کا تصور نہیں تھا، مگر رابطے مضبوط تھے، شاید ہمارے اماں ابا ہی وہ آخری نسل ہیں جنہوں نے رابطوں کی اس صورت کو آج بھی زندہ رکھا ہوا ہے، ورنہ مجھے تو ہمسائوں کے گھر قدم رکھے اک عرصہ بیت چکا ہے۔

میرے کمرے کی کھڑکی کے پاس پڑی میز، میرے اس غریب خانے کا سب سے خوبصورت حصہ ہے۔ میز پر مٹی نہ آئے، تو میں کوشش کرتی تھی کہ کھڑکی بند ہی رہے، کھڑکی بند رہی، پردہ پڑا رہا، نہ کانوں کو باہر کا شور لگا اور نہ مجھے باہر کے حالات کی خبر رہی۔ اماں جب جب کمرے میں داخل ہوئی، تو بس ایک ہی بات کرتی، "کھڑکی کھلی رکھا کرو، ہوا کراس ہوتی رہنی چاہیے”، اماں میری غیر موجودگی میں کھڑکی کھول دیتیں اور میں روز میز پر سے مٹی صاف کرتی رہتی۔اک روز شہر میں ابر کرم برسا، اماں نے کھڑکی کھلی چھوڑی، اور میز پر پڑی تمام چیزوں نے بارش کا خوب لطف اٹھایا، یہ دردناک منظر میرے اوپر کتنا بھاری گزرا، یہ تو بیان نہیں کیا جا سکتا، پر اس روز کے بعد سے میں نےبھی ضد میں کھڑکی کھلی رکھنا شروع کر دی۔ ہوا بھی کراس ہو رہی تھی، کمرے میں بیٹھنا اب باقیوں کے لیے بھی آسان تھا اور کچھ میں نے بھی اپنے دل کو سمجھا ہی لیا۔

01 03 2025 3 21 35 pm

دن کا آدھا حصہ کھڑکی سے باہر دیکھتے گزر جاتا ہے. سارا دن بچوں کے اس کھلونے کی آواز جہاں ستائے رکھتی ہے، وہیں دل کو بہلائے بھی رکھتی ہے، کیونکہ یہ آوازا ان چیخوں سے بہتر ہے، جو سامنے والے گھر سے نکل کر سیدھا میرے کانوں میں لگ کر میرے دل کو بے چین کئے رکھتی ہیں۔ تقریبا 12 سالی عمر ہو گی یا 15 سال، سامنے والوں کے گھر کی اس بچی نے شاید ہی کبھی اپنی چار دیواری سے باہر کی دنیا دیکھی ہو، لیکن میں صبح شام اس کی چیخیں سنتی رہتی ہوں۔ کہتے ہیں معذوری پوری زندگی نہیں، زندگی کا صرف ایک حصہ ہوتی ہے، لیکن اس بچی کے بارے میں کیا کہوں؟ میں نے اسے آج تک نہیں دیکھا، میں نہیں جانتی وہ کیسی دکھتی ہے، لیکن مجھے صرف یہی معلوم ہے کہ اس کی پوری زندگی اسی معذوری کی کہانی ہے۔

اس کی چیخیں کچھ تھمتی ہیں، تو سامنے لگے بجلی کے کھمبے کے پاس ہر دوسری شام، اداس آنکھوں والا غریب آ کر بیٹھ جاتا ہے، سب پڑھے لکھے اسے چھیڑتے ہیں کیونکہ وہ سب جیسا نہیں ہے، سامنے بیٹھ کر اپنی دنیا میں مگن اپنے آپ سے باتوں میں لگا رہتا ہے، لوگ اسے دیکھتے گزرتے ہیں ، بچے اس پر ہنستے ہیں، وہ کسی کی پرواہ کیے بغیر خیالوں میں کھویا، تصوراتی دنیا میں کسی سے لڑائی میں لگا رہتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وہ حقیقت میں ان پڑھے لکھے لوگوں سے جنگ نہیں لڑ سکتا..یہ سب کچھ میں اپنے کمرے کی کھڑکی سے دیکھتی ہوں۔

01 03 2025 3 01 13 pm

عین میری نظر کے سامنے والا درخت میری عمر سے تو بڑا ہی ہو گا، اور اس محلے کی طرح ہی، اس درخت نے بھی کئی جانداروں کو گھر دے رکھے ہیں، شام کے وقت آس پاس سے آنے والی ہر آواز کے درمیان ، ایک آواز ان پرندوں کی بھی ہوتی ہے، جو میری طرح اپنے گھر سے باہر کا نظارہ کرتے رہتے ہیں، ٹہنیوں پر بیٹھے دور سے مجھے دیکھتے ہیں اور میں انہیں اپنے کمرے کی کھڑکی سے دیکھتی رہتی ہوں۔خانہ بدوش آج شہر بھر کے کچرے سے کچھ قیمتی چیزیں اٹھا کر لائے ہیں، موٹرسائیکل کے پیچھے لگی ریڑھی پر بیٹھا پورا خاندان آج خوش نظر آ رہا ہے، بے لباس بچے کی آنکھوں میں چمک ہے اور مسافر اب کہیں اور کا سفر طے کرنے کی تیاریوں میں ہیں، یہ سب میں کمرے کی کھڑکی میں لگی جالیوں سے دیکھ رہی ہوں.

سنا ہے، دور بدل گیا ہے، لوگ گھروں سے صرف کام کی غرض سے نکلتے ہیں، بھلا ہو میرے کمرے کی اس کھڑکی کا، جو میرے اردگرد کی زندگیوں سے میرا رابطہ جوڑے ہوئے ہے، اداس آنکھوں والے لڑکے کی زندگی ایسی ہے، کہ جس پر مجید امجد نے کہا میں روز اِدھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے، میں جب اِدھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا، وہ نہیں جانتا کہ جب جب وہ یہاں سے گزرتا ہے تو میں ہر بار اسے اپنے کمرے کی کھڑکی سے دیکھتی رہتی ہوں.

اپنا تبصرہ لکھیں