زین العابدین عابد
گزشتہ برس ماہ ستمبر کے آخری ہفتے میں جب پروفیسر ڈاکٹر محمد زبیر اقبال کو بطور وائس چانسلر بی زیڈ یو، ملتان تعینات کیا گیا تو علمی و تدریسی حلقوں میں یہ امید پیدا ہوئی کہ وہ اپنی بصیرت افروز قیادت اور مہارت کے ذریعے یونیورسٹی کو نئی بلندیوں تک لے جائیں گے۔ان کی تقرری کو جنوبی پنجاب کے اس اہم ترین تعلیمی ادارے کی ترقی میں ایک سنگ میل قرار دیا جا رہا تھا،اور توقع تھی کہ ان کے دور میں بی زیڈ یو کی رینکنگ اور تعلیمی معیار میں نمایاں بہتری آئے گی۔تاہم، پانچ ماہ گزرنے کے باوجود تعلیمی اور انتظامی امور میں کوئی خاص تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی،جو جامعہ زکریا کے روشن مستقبل کی نوید دے سکے۔
وائس چانسلر بی زیڈ یو کی سوشل کنٹیکٹ اور روابط بڑھانے کی خواہش اپنی جگہ،لیکن اصل ذمہ داری ایک ایسے تعلیمی ماحول کی تشکیل ہے جو طلبہ اور اساتذہ کی علمی ترقی کو یقینی بنائے،کیونکہ یونیورسٹی محض ایک ادارہ نہیں بلکہ ایک مکمل نظام ہے،جس کے مثبت یا منفی اثرات پورے علاقے اور سماج پر مرتب ہوتے ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ اس کی پالیسیوں اور فیصلوں میں تعلیمی معیار،تحقیقی ترقی،اور انتظامی بہتری کو اولین ترجیح دی جائے تاکہ یہ ادارہ حقیقی معنوں میں ایک علمی اور تحقیقی مرکز کے طور پر ابھرے۔یونیورسٹی میں انتظامی معاملات کی بہتری اور تدریسی معیار کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک استاد کو بیک وقت صرف ایک اضافی انتظامی ذمہ داری دی جائے۔سنڈیکیٹ کے اراکین پہلے ہی یونیورسٹی کے پالیسی معاملات میں مصروف ہوتے ہیں، لہٰذا انہیں مزید انتظامی ذمہ داریاں دینا دانشمندی نہیں.اسی طرح،اگر کوئی استاد کسی شعبہ کا چیئرمین یا ڈین ہے تو اسے اس کے علاوہ کوئی اضافی انتظامی عہدہ نہیں دیا جائے تاکہ وہ اپنی بنیادی ذمہ داریوں پر بھرپور توجہ دے سکے۔
اس طرح ایڈمیشن کمیٹیوں میں نئے اساتذہ کو شامل کرنے کی روایت ڈالی جائے تاکہ وہ عملی تجربہ حاصل کر سکیں۔ہاسٹلز کے انتظامی عہدوں میں بھی باقاعدہ تبدیلیاں ہونی چاہئیں،اور وارڈنز کو ہر دو یا تین سال بعد تبدیل کرنا ضروری ہے تاکہ نئے افراد تازہ جذبے اور توانائی کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھا سکیں۔موجودہ صورتحال میں، بعض اساتذہ چار سے پانچ سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ سے وارڈن شپ پر قابض ہیں، جو غیر متوازن نظام کی عکاسی کرتا ہے۔
مزید برآں، یونیورسٹی میں ایسے معاملات بھی دیکھنے میں آتے ہیں جہاں ایک ہی استاد بیک وقت ڈائریکٹر اور ڈین جیسے بڑے عہدوں پر فائز ہے، جو ناقص انتظامی حکمت عملی کی نشاندہی کرتا ہے۔زکریا یونیورسٹی میں کم و بیش 620 اعلیٰ تعلیم یافتہ ریگولر اساتذہ موجود ہیں، مگر انتظامی معاملات میں صرف چند من پسند اساتذہ کو بار بار مختلف عہدوں پر تعینات کرنا غیر منصفانہ ہے۔اس روش کے نتیجے میں تدریسی معیار متاثر ہو رہا ہے کیونکہ یہ اساتذہ تدریس کی بجائے دیگر معاملات میں زیادہ دلچسپی لینے لگتے ہیں۔لہٰذا، تعلیمی معیار کو برقرار رکھنے اور ایک مؤثر انتظامی ڈھانچہ تشکیل دینے کے لیے ضروری ہے کہ ہر استاد کو صرف ایک اضافی ذمہ داری دی جائے تاکہ وہ تدریس کے بنیادی مقصد سے دور نہ ہو۔یونیورسٹی کی بہتری کے لیے اس غیر متوازن نظام پر فوری توجہ دی جانی چاہیے۔بی زیڈ یو کا تدریسی دورانیہ صبح 8 بجے سے شام 4 بجے تک ہے،لیکن اساتذہ عملی طور پر صرف دو سے تین گھنٹے ہی پڑھاتے ہیں، جو تعلیمی معیار پر سوالیہ نشان ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ تدریسی نظام کو مؤثر اور منظم بنایا جائے تاکہ تمام اساتذہ اپنی مکمل تدریسی ذمہ داریاں نبھائیں۔
"وائس چانسلر کو فوری طور پر ایک اور اہم مسئلے کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے:کئی کورسز ایسے اساتذہ پڑھا رہے ہیں جو ان مضامین کے ماہر نہیں”۔ ہر شعبے میں تدریس کے لیے متعلقہ فیلڈ کے ماہر اسکالرز کی تقرری کو یقینی بنایا جائے تاکہ تعلیمی معیار میں بہتری لائی جا سکے۔محض خانہ پری کے بجائے میرٹ اور قابلیت کی بنیاد پر اساتذہ کی تعیناتی وقت کی اہم ضرورت ہے، جسے ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جانا چاہیے۔ تمام ڈیپارٹمنٹس کو جدید تقاضوں کے مطابق فعال بنایا جائے اور ان کا نصاب دورِ حاضر کی ضروریات سے ہم آہنگ ہو۔سوشل سائنسز کے طلبہ کے لیے ابتدائی دنوں سے ہی مسابقتی امتحانات،لیکچر شپ،اور نوکری کے دیگر مواقع کے لیے تیاری کا حصہ نصاب میں شامل کیا جائے۔ہر کورس میں کمپیوٹر سائنس ،آئی ٹی اور AI کو لازمی پڑھایا جائے تاکہ طلبہ گوگل ریسرچ اور دیگر ڈیجیٹل ذرائع سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں۔طلباء میں مطالعہ کے فروغ کے لئے ہر سمسٹر میں طلبہ کے لیے کم از کم ایک کتاب پڑھنے اور اس پر ریویو لکھنے کو لازمی قرار دیا جائے۔یونیورسٹی میں لائبریری کے استعمال کو یقینی بنایا جائے، طلبہ کی وہاں حاضری لگے اور انہیں کتابوں کے مطالعے کی ترغیب دی جائے۔اس وقت لائبریری کا رجسٹر خالی پڑا ہے۔مہینوں گزر جاتے ہیں طلباء کتابوں کا اجراء نہیں کراتے۔ یونیورسٹی میں صبح 8 بجے سے شام 4 بجے تک مکمل تدریسی سرگرمیاں جاری رہنی چاہئیں،طلبہ غیر تدریسی اوقات میں کنٹین پر وقت ضائع نہ کریں۔ ہر ڈیپارٹمنٹ اپنا الگ بریک ٹائم ترتیب دے تاکہ ہجوم اور وقت کے ضیاع سے بچا جا سکے۔پہلے دو سال تمام طلبہ کو جنرل کورسز پڑھائے جائیں، جس کے بعد وہ اپنی مخصوص فیلڈ میں مہارت حاصل کریں۔
ایک سنجیدہ تجویز سامنے آئی ہے کہ بی زیڈ یو کے وائس چانسلر کو چاہیے کہ وہ سابق انتظامی امور کے افسران اور تدریسی خدمات سے سبکدوش ہونے والے اساتذہ کو مدعو کرکے ان کے تجربات سے استفادہ کریں۔ یہ شخصیات اپنی دانش، مشاہدے اور عملی تجربے کی بنیاد پر یونیورسٹی کی بہتری کے لیے قیمتی تجاویز پیش کر سکتی ہیں، جو تعلیمی اور انتظامی شعبوں میں مثبت اصلاحات کا باعث بنیں گی۔ ایک مستحکم اور ترقی یافتہ تعلیمی ادارے کے لیے ضروری ہے کہ ماضی کے تجربات سے سیکھا جائے اور انہیں موجودہ حالات کے مطابق بروئے کار لایا جائے۔
یونیورسٹی کے کوالٹی انہانسمنٹ سیل کا بنیادی کام باضابطہ جائزہ طریقہ کار کے ذریعے ادارے کی مضبوط جہتوں اور بہتری کے پہلوؤں کی نشاندہی کرنا اور اصلاحی اقدامات کو یقینی بنانا ہے۔اس لئے اس سیل کو فعال بنایا جائے۔ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ وی سی ڈاکٹر زبیر غوری سینیئر ایگزیکٹو کے طور پر اسٹریٹیجک رہنما، تعلیم و تحقیق کے ماہر، پالیسی مشیر، اور میڈیا پیشہ ور کے طور پر کام کر چکے ہیں،لاہور نالج پارک کمپنی کے بانی سی ای او کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں، مگر فزیکلی ملتان میں ان کی شخصیت ان تمام دعوؤں کے برعکس نکلی ہے۔
کسی بھی وائس چانسلر کا اولین فرض یونیورسٹی کی ساکھ، رینکنگ اور تحقیقی معیار کو بلند کرنا ہے، نہ کہ ذاتی تعیشات کے لیے غیر معروف رہائشی منصوبوں کی ممبرشپ حاصل کرنے کے لئے دنیا میں ٹھٹھہ یا مخول کا نمونہ بنے۔ ایک تعلیمی ادارے کے سربراہ کو چاہیے کہ وہ غیر ضروری ڈیپارٹمنٹس کے بجائے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق نئے ڈگری پروگرام اور تحقیقی انسٹی ٹیوٹس قائم کرے، تاکہ بی زیڈ یو ملتان جیسا اچھی روایت اور ساکھ کا حامل ادارہ خود ایسی علمی و تحقیقی عظمت حاصل کرے کہ لوگ اس کی ممبرشپ کے خواہشمند ہوں۔
کالم میںشامل آراء کالم نگار کی اپنی رائے پر مشتمل ہوتی ہے،جس سے ادارے کا متفق ہوناضروری نہیںہے.