Untitled 2025 05 26T002618.967

ٹرانس جینڈر کمیونٹی: ایک نظر بنیادی حقوق پر

صفورا امجد

خواجہ سرا افراد بھی ہماری طرح انسان ہیں، مگر ہمارے معاشرے میں انہیں وہ حقوق اور عزت نہیں دی جاتی جس کے وہ حقیقی حقدار ہیں۔ ان کے ساتھ ہمیشہ سے برا اور امتیازی سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں زندگی کے تقریبا ہر شعبے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان، جہاں روایتی سوچ غالب ہے جس کی وجہ سے خواجہ سراؤں کو معاشرے میں انتہائی مشکلات درپیش ہیں۔Untitled 2025 05 26T002608.751

پاکستان میں 2017ء کی آبادی اور ہاؤسنگ مردم شماری میں 21,774 خواجہ سراؤں کی اطلاع دی گئی ۔ تاہم، یہاں یہ بات قابلِ فکر ہے کہ یہ اعداد و شمار مکنہ طور پر ایک کم تخمینہ ہے،کچھ اندازوں کے مطابق 300,000 تک کی حقیقی آبادی تجویز کی گئی ہے۔ یہ تفاوت پاکستان میں خواجہ سراؤں کو درپیش چیلنج کو اجاگر کرتا ہے ۔

حق زندگی ہر انسان کا بنیادی حق ہے لیکن بد قسمتی سے خواجہ سراء اس بنیادی حق سے بھی محروم ہیں۔ ہمارے معاشرے میں جہاں اولاد کی پیدائش پر خوشی منائی جاتی ہے وہیں خواجہ سراء کی پیدائش پر انہیں گھر سے نکال دیا جاتا ہے اور قبول نہیں کیا جاتا۔ اس طرح نہ صرف گھر کے افراد بلکہ معاشرہ بھی انہیں قبول نہیں کرتا ہےاور ان کا حق صرف کتابوں تک ہی محدود ہوکر رہ جاتا ہے ۔انہیں معاشرے میں نفرت، ظلم اور مار پیٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو انتہائی افسوس ناک ہے۔

بعض واقعات میں خواجہ سراء کوصرف اپنی صنفی شناخت ظاہر کرنے پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح کے واقعات انسانی حقوق کے عالمی چارٹرز کے لیے سوالیہ نشان ہیں ۔ جہاں ہر انسان کے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جاتی ہے وہیں خواجہ سراء کے حقوق کو سراسر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ان سے جینے کا بنیاد کا بنیادی حق بھی لے لیا جاتا ہے۔

پاکستان میں سال 2024ء میں ٹرانسجینڈر افراد کے قتل کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں‌تو سب سے ذیادہ واقعات خیبر ُپختوانخوا میٰں‌ نظر آتے ہیں، حال میں‌ہی خیبر پختونخوا (کے پی) میں حالیہ قتل کے واقعہ میں دو ٹرانسجینڈر خواتین کو 21 اکتوبر 2024ء کو مردان، کے پی میں ان کے گھر میں چاقو مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ حملہ آوروں نے خنجروں کا استعمال کیا، اور بعد میں دو مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ٹرانس ایکشن کی رہنما فرزانہ جان کے مطابق، جنوری 2024 ءسے کے پی میں 9 دیگر ٹرانسجینڈر افراد کو فائرنگ کے واقعات میں ہلاک کیا گیا ہے۔
Untitled 2025 05 26T002559.902
سال 2024ء میں کل رپورٹ شدہ قتل کے واقعات میں صرف خیبر پختونخوا میں اس سال کم از کم 7 ٹرانسجینڈر خواتین ہلاک کی گئیں، جبکہ گزشتہ پانچ سالوں میں ایسے جرائم کے صرف ایک کیس میں سزا ہوئی ہے۔قومی سطح پر، سال 2021ء میں 20 سے زائد ٹرانسجینڈر افراد کو قتل کیا گیا (آئی سی جے کے اعداد و شمار کے مطابق)، لیکن 2024ء کے اعداد و شمار ابھی تک جمع ہو رہے ہیں۔ کے پی سب سے زیادہ تشدد زدہ علاقہ ہے۔زیادہ تر حملوں میں چاقو گھونپنا، فائرنگ، یا غیرت کے نام پر قتل شامل ہیں، جو عام طور پر جاننے والوں، گینگز، یا قریبی ساتھیوں کے ہاتھوں ہوتے ہیں۔ ان واقعات میں‌ سزاؤں کی کم شرح کے مطابق سال 2019ء سے رپورٹ ہونے والے 267 میں سے صرف ایک کیس میں سزا ہوئی ہے، جو نظامی بے اعتنائی کو ظاہر کرتا ہے۔

پاکستان کے سال 2018ء کے ٹرانسجینڈر حقوق ایکٹ کے باوجود، سماجی بدنامی، قدامت پسند ردِ عمل، اور پولیس کی بے عملی کی وجہ سے تشدد جاری ہے۔ ٹرانسجینڈر خواتین، خاص طور پر جنسی کارکنان، زیادہ خطرے کا شکار ہیں۔ بہت سے افراد کو سماجی بائیکاٹ کی وجہ سے بھیک مانگنے یا جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے۔

عالمی تناظر میں‌ٹرانس مرڈر مانیٹرنگ پروجیکٹ کے مطابق، اکتوبر 2023ء سے ستمبر 2024ء تک دنیا بھر میں350 سے زائد ٹرانسجینڈر افراد کو قتل کیا گیا، جس میں لاطینی امریکہ اور کیریبین سب سے خطرناک علاقے ہیں۔

Untitled 2025 05 26T003300.653حق وراثت بھی اہم انسانی حقوق میں سے ہے۔ جس کا ذکر نہ صرف اسلامی طور پر ہے بلکہ قانونی طور پر بھی ہے۔ پاکستان میں ٹرانس جینڈر افراد کو جائیداد میں وراثت کا حق حاصل ہے، جیسا کہ ٹرانس جینڈر افراد ( حقوق کے تحفظ) ایکٹ،2018ء میں درج ہے۔ یہ ایکٹ واضح کرتا ہے کہ وراثت کے قانون کے مطابق ، ایک خواجہ سراء کے قومی شناختی کارڈ پر ظاہر کردہ جنس کے ذریعے وراثت میں حصہ کا تعین کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ٹرانس جینڈر مرد کا حصہ ایک مرد کے برابر ہوگا،اور ایک ٹرانس جینڈر عورت کا حصہ عورت کے برابر ہوگا ۔لیکن خواجہ سراؤں کو اس بات کا علم بھی نہیں ہےکہ انہیں وراثت میں حق مل سکتا ہے۔ اکثر خاندان انہیں جائیداد سے عاق کر دیتے ہیں یا ان سے زبردستی دستخط لےکر جائیداد سےبےدخل کر دیا جاتا ہے۔

غیر سرکاری تنظمیں، حکومت اور میڈیا خواجہ سراء کے حقوق کے لیے ایک اہم کردار ادا سکتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے آواز بلند کریں بلکہ ساتھ ہی لوگوں میں شعور بیدار کریں کہ خواجہ سراء بھی ہماری طرح انسان ہیں اور انہیں بھی جینے کا حق حاصل ہے۔یہ سمجھنا ضروری ہے کہ معاشرہ بھی تب ہی ترقی کرتا ہے، جب ہر فرد کو برابری کا مقام دیا جائے۔

Untitled 2025 05 11T003709.473
صفورا امجد، ویمن یونیورسٹی ملتان کے شعبہ ابلاغ عامہ کے آٹھویں سمسٹر کی طالبہ ہیں۔ میڈیا، مواصلات اور سماجی مسائل کے بارے میں پرجوش ہونے کے ساتھ، وہ کہانی سنانے اور صحافت کے ذریعے بیداری اور تبدیلی لانے کے لیے اپنی آواز کا استعمال کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں