Untitled 2025 06 22T144401.306

مری کا نیا روپ: جہاں سفر ہو خوشگوار اور قیام بے فکر

قمر جہاں

کہانی کافی طویل ہے، مگر اپنی ڈائری کے چند صفوں سے الفاظ چرا کر انتظامیہ کی کارکردگی کی نظر کرنے کو دل چاہا تو کچھ لائنیں شیئر کر رہا ہوں…

مری کی ہواؤں میں ویسے تو ہمیشہ ہی سے ایک تازگی سی محسوس ہوتی ہے، مگر اس بار جب جنوبی پنجاب کی گرمی سے تنگ آکر مری کی جانب راہ فرار اختیار کیا تو ہوا کے ساتھ ساتھ انتظام بھی بدلا ہوا محسوس ہوا۔ پہاڑی موسم کے ساتھ جو نظم و ضبط دکھائی دیا، وہ چند برس پہلے کے مری سے خاصا مختلف تھا۔

مال روڈ پر قدم رکھتے ہی سب سے پہلا فرق صفائی اور ترتیب میں محسوس ہوا۔ دکانیں منظم، ٹریفک رواں، اور پیدل چلنے والوں کے لیے علیحدہ راستوں کی دستیابی جیسے معمولی لیکن مؤثر انتظامات واضح تھے۔ اسی سڑک کے ایک کونے پر قائم ٹورزم انفارمیشن کاؤنٹر نے توجہ کھینچی، جہاں سے سیاحوں کو نہ صرف رہنمائی دی جا رہی تھی بلکہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے فراہم کردہ بروشرز اور ہیلپ لائنز بھی دستیاب تھیں۔

ٹریفک کا پرانا مسئلہ، جو مری کا سب سے بڑا دردِ سر مانا جاتا رہا ہے، اس بار خاصی حد تک قابو میں دکھائی دیا۔ ون وے نظام کی سختی سے عمل درآمد، مخصوص مقامات پر پارکنگ اسٹینڈز، اور ٹریفک وارڈنز کی مستقل موجودگی نے صورتحال کو کافی بہتر کر دیا ہے۔ جھیکا گلی، سنی بنک، اور لوئر بازار جیسے علاقوں میں جہاں ماضی میں افراتفری عام تھی، اب ایک منظم نظام دکھائی دیتا ہے۔

Untitled 2025 06 22T153552.046 1
ظہیر عباس شیرازی
ڈپٹی کمشنر مری۔ فائل فوٹو

ایک خاص بات جو مقامی افراد نے بھی زور دے کر بتائی، وہ یہ تھی کہ صفائی کے نظام میں تسلسل پیدا ہوا ہے۔ صبح سویرے عملہ گلیوں میں سرگرم دکھائی دیتا ہے، اور سیاحوں میں بھی اب یہ احساس پایا جاتا ہے کہ یہ جگہ صرف "دیکھنے” کی نہیں بلکہ "محفوظ رکھنے” کی بھی ہے۔

ایک اور قابل ذکر تبدیلی یہ تھی کہ مری میں اب سیاحوں کے تحفظ، شکایات کے اندراج، اور فوری رابطے کے لیے ضلعی کنٹرول روم متحرک ہے۔ کئی جگہوں پر آگاہی بینرز، ہنگامی نمبرز، اور رضا کار عملہ بھی موجود نظر آیا۔

پچھلے کچھ عرصے میں غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کارروائیوں نے بھی اثر دکھایا ہے۔ پہاڑی ڈھلوانوں پر پھیلا بے ترتیب کنکریٹ کا بوجھ کم ہوتا محسوس ہوا، جو قدرتی حسن کی حفاظت کی طرف ایک مثبت قدم ہے۔

مری سے واپسی سے قبل میری ضلعی انتظامیہ کے سربراہ ڈپٹی کمشنر آغا ظہیر عباس شیرازی سے بھی ملاقات ہوئی، جنہوں نے مری کے انتظامی امور، جاری اصلاحات، اور مستقبل کے منصوبوں پر روشنی ڈالی۔ گفتگو سے اندازہ ہوا کہ انتظامیہ اب محض "موسمی اقدامات” سے آگے بڑھ کر "پائیدار بہتری” کی طرف گامزن ہے۔

واپسی پر ایک چائے کے ٹھیلے سے بیٹھ کر چائے پینے کا ارادہ کیا تو سوچا ان کی رائے بھی کیوں نہ شامل کر لی جائے، آج کل کام کاج میں کس قسم کا فرق محسوس کرتے ہیں کہ سوال پر بزرگ چاچا نے گرم چائے کی پیالی ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے بتایا کہ پہلے ٹریفک کہ رش اور بے ترتیبی کی وجہ سے سیاہوں کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی مختلف دشواریوں کا سامنا ہوتا تھا، جب اپ کی گاڑی کہ اگے 5 اور پیچھے 10 گاڑیاں قطار میں کھڑی ہوں تو صاحب آپ چائے یا بسکٹ تو دور خود اپنا حال بھی بھول جائیں گے

مسکراتے ہوئے اس کے سوال پر ہاں میں سر ہلایا، تو چاچا نے بات کو اگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ لیکن اب سکون ہے، نہ تو بے ہنگم ٹریفک کا مسئلہ ہے نہ ہی صفائی ستھرائی یا غیر قانونی مافیا کا، ایک اور سوال کے جواب میں چاچا نے بتایا کہ سٹال اور ٹھیلے پر انے والے سیاہوں کے لیے بھی وہی قیمتیں ہیں جو یہاں کے مقامی افراد کے لیے ہیں

پہلے کبھی نہ کبھی بازی لگ جایا کرتی تھی لیکن اب تو اضافی قیمت لینا، اپنے لیے زمین تنگ کرنے کے برابر ہے ایک گہرے سے قہقہے کہ ساتھ چائے کا اخری گھونٹ بھرا، جب رزقِ حلال کمانے کے ممکنہ مواقع موجود ہوں تو کس کا دل کرتا ہے حرام کمانے کو اس اخری جملے کے ساتھ چاچا کے چہرے کی مسکراہٹ بغیر کہے بھی بہت کچھ کہہ رہی تھی، گاڑی میں بیٹھے اور اسلام آباد کی جانب سفر کا ارادہ کیا.

Untitled 2025 06 05T001132.355
قمر جہاں ملتان سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی ہیں اور مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں