WhatsApp Image 2025 03 23 at 02.40.01

زعم کا نشہ: ایک دیمک ہے

زعم۔۔۔ یہ وہ نشہ ہے جو طاقت، اختیار، اور دولت کے ساتھ آتا ہے۔ یہ نشہ انسان کو اس قدر اندھا کر دیتا ہے، اور اسے اس قدر احساسِ برتری میں ڈبو دیتا ہے، اور اسے یہ باور کرا دیتا ہے کہ وہ دوسروں کے جذبات، ان کی عزتیں، اور ان کی احساسات کو کچلنے کا حق رکھتا ہے۔ یہ زعم کا نشہ ہے جو انسان کو اس قدر مغرور بنا دیتا ہے کہ وہ اپنے قریبی رشتوں، ملازمین، یا حتیٰ کہ ان لوگوں کو بھی نظرانداز کر دیتا ہے جو اس کے لیے خلوص اور محبت سے سرشار ہوتے ہیں۔

جب انسان کے پاس طاقت ہو، اختیار ہو، یا دولت ہو، تو وہ اکثر یہ بھول جاتا ہے کہ یہ چیزیں عارضی ہیں۔ یہ نعمتیں اسے آزمائش کے لیے دی گئی ہیں، لیکن وہ انہیں اپنی برتری کا ذریعہ سمجھنے لگتا ہے۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ طاقت کا اصل مقصد دوسروں کی مدد کرنا ہے، نہ کہ انہیں نیچا دکھانا۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اختیار کا مطلب ذمہ داری ہے، نہ کہ ظلم۔ اور دولت کا مطلب سخاوت ہے، نہ کہ تکبر۔

لیکن زعم کا نشہ انسان کو یہ سب کچھ بھلا دیتا ہے۔ وہ اپنے ملازم کو حقیر سمجھنے لگتا ہے، اپنے بچوں کو اپنی مرضی کا غلام بنا لیتا ہے، اور اپنے دوستوں کو اپنی عزت و توقیر کا محتاج بنا دیتا ہے۔ وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ وہ جو چاہے کہہ سکتا ہے، جو چاہے کر سکتا ہے، اور کوئی اسے جواب دینے کی جرات نہیں کر سکتا۔ وہ دوسروں کے جذبات کو روندتا ہے، ان کی عزت نفس کو پامال کرتا ہے، اور ان کی روح کو کچل دیتا ہے۔WhatsApp Image 2025 03 23 at 02.36.32
لیکن کیا یہی انسانیت ہے؟ کیا یہی وہ طاقت ہے جو ہمیں دی گئی ہے؟ کیا یہی وہ اختیار ہے جس کا ہمیں احساس ہے؟ ہرگز نہیں۔ طاقت کا اصل مقصد دوسروں کو سہارا دینا ہے، نہ کہ انہیں گرانا۔ اختیار کا مطلب دوسروں کی مدد کرنا ہے، نہ کہ انہیں دبانا۔ اور دولت کا مطلب دوسروں کے دکھوں کا مداوا کرنا ہے، نہ کہ انہیں اور زیادہ دکھ دینا۔

زعم کا نشہ انسان کو اس قدر مغرور بنا دیتا ہے کہ وہ اپنے آس پاس کے لوگوں کے دکھوں کو محسوس ہی نہیں کرتا۔ وہ یہ نہیں دیکھتا کہ اس کے الفاظ کس طرح دوسروں کے دل کو چھید رہے ہیں۔ وہ یہ نہیں سمجھتا کہ اس کا رویہ کس طرح دوسروں کی روح کو زخمی کر رہا ہے۔ وہ صرف اپنی طاقت، اپنے اختیار، اور اپنی دولت کے نشے میں مست رہتا ہے۔

ہمارے پاکستانی معاشرے میں‌ مذہبی رجحان ہونے اور دنیا فانی ہونے کا یقین و ایمان رکھنے کے باوجود بہت سے افراد کسی نہ کسی زعم میں‌مبتلا نظر آتے ہیں، کوئی اپنے غریب رشتہ داروں کی رقم یا راشن اور بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں‌امداد کر کے انہیں‌اپنے احسان کے بوجھ تلے دبے نظر آ نا دیکھنا چاہتے ہیں‌، تو کوئی ملازم اپنے افسر کی خوشامد کرے یا ملازمت چھن جانے کے خوف سے کوئی احتجاج نہیں‌کرے تو یہ افسر خود کو رزق کی خدائی صفت پر خدا سمجھنے لگ جاتا ہے، کسی کے پاس کسی کے معاملے کے فیصلےیا کسی کام کے ہونے کی طاقت آ جائے تو وہ بھی اسی خدائی صفت کی وجہ سے اپنے آپ کو مالک و منبع سمجھنے لگتاہے.

لیکن ایک دن یہ نشہ بھی اترتا ہے۔ ایک دن طاقت ختم ہو جاتی ہے، اختیار مٹ جاتا ہے، اور دولت رخصت ہو جاتی ہے۔ تب انسان کو احساس ہوتا ہے کہ اس نے کیا کھویا ہے۔ تب اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کے غرور نے اسے کس قدر تنہا کر دیا ہے۔ تب اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کے زعم نے اس کے قریبی رشتوں، دوستوں، اور ملازمین، حتیٰ‌کہ بے لوث عزت و محبت کرنے والوں‌ کو اس سے کس قدر دور کر دیا ہے۔

تو آئیے، اس زعم کے نشے سے بچیں۔ طاقت، اختیار، اور دولت کو دوسروں کی مدد کے لیے استعمال کریں، نہ کہ انہیں نیچا دکھانے کے لیے۔ دوسروں کے جذبات کا خیال رکھیں، ان کی عزت نفس کو پامال نہ کریں، اور ان کی روح کو زخمی نہ کریں۔ کیونکہ اصل طاقت وہ نہیں جو دوسروں کو دباتی ہے، بلکہ وہ ہے جو دوسروں کو اٹھاتی ہے۔

زعم کا نشہ اترنے سے پہلے ہوش کے ناخن لیں۔ کیونکہ جب یہ نشہ اترتا ہے، تو انسان کے پاس صرف پچھتاوا رہ جاتا ہے۔ اور پچھتاوے کا کوئی علاج نہیں ہوتا۔

Yousf Abid 1
یوسف عابد

اپنا تبصرہ لکھیں