ویب نیوز
یہ کسی عام فقیر کی تصویر نہیں، یہ سجاول تحصیل ٹھٹھہ (سندھ) سے تعلق رکھنے والے مشہور و معروف کہانی نویس اور ناول نگار محترم مشتاق کاملانی ہیں.
کاملانی صاحب سندھ یونیورسٹی جامشورو کے ذہین ترین طالب علموں میں سے ایک تھے۔ مشتاق احمد کاملانی صاحب فر فر انگریزی بولتے ہیں، فارسی، پنجابی اور اردو تو جیسے آپ کی مادری زبانیں ہوں.
مشتاق احمد کاملانی صاحب نے اپنے افسانے "گونگی بارش” اور "چپٹا لہو” لکھ کر سندھی افسانہ نگاری میں وہ نام پیدا کیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ان کا نام کہانی اور افسانہ نگاروں کے صفحہ اول میں شمار ہونے لگا. کاملانی صاحب نے اپنا ناول "رولو” عین گریجویشن کے امتحان کے دوران ہی لکھا تھاجنکہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے زمانے میں ایک کہانی "گھٹی ہوئی فضا” کے نام سے بھی لکھی ہے۔
اب اس نامور ادیب کے چھوٹے سے گھر پر قبضہ کر لیا گیا ہے اور اب یہ کئی سالوں سے دن کے وقت ٹھٹھہ کی گلیوں میں اور رات کو سجاول کے بس سٹاپ پر بھیک مانگتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ کاملانی صاحب کے چہرے پر آپ کو بیک وقت دو مخالف کیفیتیں دیکھنے کو ملیں گی یعنی آنکھوں میں آنسو، اور ہونٹوں پر تمام انسانیت پر طنزیہ مسکراہٹ….
ویب نیوز کے مطابق اپیل کی گئی ہے کہ خدارا ! مشتاق کاملانی صاحب کے ساتھ ہو نے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائیے ورنہ مشتاق کاملانی صاحب کے ذیل کے اس جملے پر ہی عمل کر لیجیئے جو انہوں نے ایک کہانی میں لکھا ہےکہ …۔
"اگر خدا نے تمہارے منہ میں زبان رکھی ہے اور اسے سچ کہنے کے لیے اس کا استعمال نہیں کرتے، تو ایک احسان کرو، اسے کٹوالو… اور ہاں! جہاں اتنی محنت ہوگی، وہاں ایک کام اور بھی کروا لینا… اپنی یہ ناک بھی کٹوا دینا…، انسانیت کو تم پر کم از کم شرم تو نہ آسکے”۔