Untitled 2025 11 03T090733.716

سیلاب میں زندگی کا جنم — حاملہ خواتین کی آزمائش اور امید کی روشنی

انیلہ اشرف

جب پانی بستیوں کی دیواروں سے ٹکرا کر گھروں میں داخل ہوتا ہے، جب زمین قدموں تلے لرزنے لگتی ہے اور آسمان خوفناک بادلوں سے ڈھک جاتا ہے — تو سب سے زیادہ کمزور وہ ہوتی ہے جو اپنی کوکھ میں نئی زندگی سنبھالے ہوئے ہوتی ہے۔
یہ کہانی ہے جنوبی پنجاب کی ان حاملہ خواتین کی، جو سیلاب کی بے رحم لہروں کے بیچ، امید اور موت کے درمیان جھولتی زندگی گزار رہی ہیں۔

رانی مائی — زندگی اور موت کے درمیان ایک ماں
"ڈاکٹر نے کہا تھا کہ اس بار آپریشن ہوگا، جان کا خطرہ ہے۔
پھر اچانک اعلان ہوا — سیلاب آرہا ہے، سب اپنے گھر خالی کریں!”
یہ الفاظ ہیں شینی میانی، جلالپور پیروالا کی سیلاب متاثرہ رانی مائی کے، جو 9ویں ماہ کی حاملہ ہیں۔
وہ بتاتی ہیں، "ہر وقت ایک ہی خوف دل میں رہتا ہے — اگر بچہ اسی سیلاب میں پیدا ہونے لگا تو کیا ہوگا؟
برسوں کی محنت سے جو گھر بنایا تھا، آج صرف جان بچا کر خالی ہاتھ نکلنا پڑا۔”

رانی مائی کی کہانی اکیلی نہیں۔ یہ کہانی ان سیکڑوں عورتوں کی ہے جو کیچڑ، بیماری، بھوک اور خوف کے بیچ نئی زندگی کو جنم دینے کی جدوجہد کر رہی ہیں۔چھ بچوں کی ماں رانی کہتی ہیں، "معدہ جلتا ہے، خون کی کمی ہے، آپریشن کا کہا گیا ہے، مگر دوا تو کیا، سکون کی نیند بھی نصیب نہیں۔”
Untitled 2025 11 03T090847.755
2025 کے سیلاب نے جنوبی پنجاب کے ہزاروں خاندان اجاڑ دیے۔
اعداد و شمار کے مطابق ضلع ملتان اور گردونواح میں سینکڑوں حاملہ خواتین اب بھی بے سرو سامانی کے عالم میں کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ان میں سے بیشتر کے پاس بنیادی طبی سہولیات، محفوظ خوراک، صاف پانی، یا تربیت یافتہ دائیوں کی مدد تک میسر نہیں۔
دو ماہ سے جاری کیمپوں کی زندگی نے ان خواتین کو جسمانی اور ذہنی طور پر توڑ کر رکھ دیا ہے۔
بے یقینی، تھکن، ہائی بلڈ پریشر، خون کی کمی، اور خوف نے ان کے چہروں سے امید کی چمک چھین لی ہے۔
جہاں ایک طرف حمل کے درد ہیں، وہیں دوسری جانب ہر لمحہ یہ سوچ — “اگر پانی اور بڑھ گیا تو کہاں جائیں گے؟”

رضیہ، ساجدہ اور رخسانہ — ایک سیلاب، تین کہانیاں

رضیہ بی بی کہتی ہیں، "آٹھواں مہینہ چل رہا ہے، گھر گیا، سامان گیا، اب انسانیت بھی چلی گئی ہے۔
ایک ماہ سے دوا نہیں ملی، اور کسی کو احساس نہیں کہ حاملہ عورت کو کیا چاہیے۔”

ساجدہ بی بی کے مطابق، "چھٹے مہینے کا حمل ہے، تین بچے ساتھ ہیں، سیلاب آیا تو کشتی پر نکالا گیا۔
مرد ساتھ نہیں آئے۔ اب نہ اچھی خوراک ہے، نہ ڈاکٹر۔ صرف انتظار ہے — کسی معجزے کا۔”

رخسانہ، جو موہانہ سندیلہ کی رہائشی ہے، کہتی ہے، "تین بچے پہلے ہیں، اب چوتھی بار بیٹی کی امید ہے۔
سیلاب نے مال مویشی سب بہا دیے، شوہر مزدور ہے، اب صرف کھانا ملتا ہے، دوا نہیں۔”
Untitled 2025 11 03T091019.731
یہ کہانیاں صرف چند خواتین کی نہیں، بلکہ پورے جنوبی پنجاب کے اجتماعی دکھ کی علامت ہیں — جہاں قدرتی آفات صرف زمین نہیں، زندگیوں کو بھی بہا لے جاتی ہیں۔

ماہرین صحت خبردار کر رہے ہیں کہ اگر ان خواتین کو فوری طبی مدد نہ ملی تو یہ صورتحال نئے انسانی المیے میں بدل سکتی ہے۔سیلاب زدہ علاقوں میں انفیکشن، غذائی قلت، ڈینگی اور ہیضہ جیسے امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں۔حاملہ خواتین ان بیماریوں کے لیے سب سے زیادہ حساس طبقہ ہیں۔
ان کی صحت میں بگاڑ آنے کا مطلب صرف ایک عورت کی زندگی نہیں، بلکہ پوری نسل کی کمزوری ہے۔
Untitled 2025 11 03T091223.239
ان حاملہ خواتین کے لئے مستقبل میں‌بھی پیش بندی کےطور پر ہر متاثرہ علاقے میں خواتین کے لیے الگ، محفوظ اور فعال میڈیکل کیمپس قائم کیے جانے چاہئیں اور فیلڈ میں لیڈی ہیلتھ ورکرز اور مڈوائفز کو فوری طور پر متحرک کیا جائے۔اس طرح حاملہ خواتین کو خصوصی راشن پیک دیے جائیں جن میں آئرن، فولک ایسڈ، اور پروٹین شامل ہوں۔اس کے ساتھ ان حاملہ خواتین کو ذہنی دباؤ اور خوف کا سامنا کرنے والی خواتین کے لیے کونسلنگ سیشنز کا اہتمام کیا جانا چاہیئے۔صاف پانی اور سینیٹری کٹس کی فراہمی کو ترجیح دی جائے تاکہ ماں اور بچہ دونوں محفوظ رہیں۔سب سے بڑھ کر پنجاب ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (PDMA) اور محکمہ صحت کے درمیان فوری کوآرڈینیشن سے خواتین کے مسائل کو ہنگامی بنیادوں پر حل کیا جائے۔

سیلاب کی کہانی صرف تباہ شدہ گھروں کی نہیں، بلکہ ان ماؤں کی ہے جو پانیوں میں امید کے دیے جلا رہی ہیں۔
ان کے قدموں کے نیچے کیچڑ ضرور ہے، مگر دلوں میں نئی زندگی کی دھڑکنیں ہیں۔
پاکستان اگر واقعی ایک فلاحی ریاست ہے تو اس کی اصل آزمائش یہی ہے —
کہ وہ ان خاموش ماؤں کی آہوں کو سن سکے،
ان کے لیے پناہ، دوا اور دعا کا بندوبست کر سکے۔
کیونکہ زندگی کے اس سفر میں، ماں کی حفاظت ہی آنے والی نسل کا مستقبل ہے۔

Untitled 2025 10 08T204750.958
انیلہ اشرف سینیئر صحافی، میڈیا ٹرینر ہونے کے ساتھ لب آزاد کی بانی ایڈیٹر ہیں، اور مختلف موضوعات پر لکھتی رہتی ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں