زیست ناز
جنوبی پنجاب، جو پاکستان کا ایک اہم زرعی اور ثقافتی علاقہ ہے، خواتین کے ساتھ ہونے والے مظالم اور صنفی عدم مساوات کے حوالے سے بدقسمتی سے ایک سنجیدہ صورتحال کا منظرنامہ پیش کرتاہے۔ یہ خطہ سماجی، اقتصادی اور تعلیمی پسماندگی کی وجہ سے خواتین کے حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا شکار ہے۔
خواتین پر مظالم مختلف اشکال میںپایاجاتاہے.جس میںگھریلو تشددکی صورت میںخواتین کو جسمانی، ذہنی اور جذباتی طور پر تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اکثر خواتین کےخلاف یہ مظالم گھر کے اندر ہی وقوع پذیر ہوتے ہیں اور متاثرہ خواتین کو انصاف تک فوری رسائی نہیں بھی حاصل نہیںہوتی ہے۔کاروکاری اور غیرت کے نام پر قتل میں جنوبی پنجاب میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات تشویشناک حد تک عام ہیں۔ قبائلی اور دیہی روایات کے تحت خواتین کو چھوٹے چھوٹے الزامات پر قتل کر دیا جاتا ہے، جن میں اکثر معاملات جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں۔جبری شادی اور ونی کی رسومات میںکم عمری کی شادی اور ونی جیسی رسومات بھی جنوبی پنجاب میں عام ہیں۔لڑکیوں کو تنازعات کے حل کے طور پر قربان کیا جاتا ہے، جو ان کی تعلیم اور آزادی پر منفی اثر ڈالتی ہیں.
خواتین میںشعور وتعلیم کی کمی ان کے حقوق کی خلاف ورزی کی ایک بڑی وجہ ہے، دیہی علاقوں میں بچیوں کی تعلیم کو ترجیح نہیں دی جاتی، جس کی وجہ سے وہ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے سے قاصر رہتی ہیں۔اس طرح معاشی استحصال کی وجہ سے خواتین کو زرعی اور گھریلو کاموں میں شدید مشقت کرنی پڑتی ہے، لیکن انہیں ان کے کام کا مناسب معاوضہ نہیں دیا جاتاہے۔
خواتین پرظلم وستم کی وجوہات میںتعلیمی پسماندگی اورتعلیم کی کمی خواتین کے حقوق کی آگاہی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔اس طرحسماجی روایات اور قبائلی نظام کے تحت قبائلی قوانین خواتین کے حقوق کو محدود کرتے ہیں۔اس کے علاوہ قانون کی عملداری میں رکاوٹیں بھی حائل ہیںکیونکہ خواتین پر ہونے والے مظالم کے خلاف قوانین توموجود ہیں، لیکن ان کا اطلاق کمزور ہے۔
معاشی عدم مساوات کی وجہ سےخواتین کی خودمختاری کو محدود کردیاگیاہےاورایسی سماجی اور معاشی رکاوٹیں حائل کر دی گئیںہیں کہ وہ مردوںکے شانہ بشانہ ملازمت اور گھریلو ذمہ داریاںساتھ ساتھ ادا کرکےاپنا نصف سے ذیادہ حصہ ڈالنے کے باوجود اپنے حق سے محروم رہتی ہیں اور اپنے زاتی اخراجات کے لئے اپنی کمائی خرچ کرنے کے لئے مردوںکی محتاج ہوتی ہیں۔
خواتین پر مظالم ختم کرنے اور ان کو کلی طور پر مظبوط کرنے کے لئےتعلیمی شعور پیدا کرناضروری ہےتاکہ خواتین اور مردوں دونوں کے لیے تعلیم کو فروغ مل سکے اورصنفی مساوات کو یقینی بنایا جا سکے۔اس طرح ملک میںخواتین کے لئے موجود کثیر قوانین پر عملدرآمد یقینی بنایاجائے،تاکہ غیرت کے نام پر قتل، گھریلو تشدد اور جبری شادیوں جیسے مظالم سے خواتین کو آزادی دلائی جاسکے.اس کے ساتھ ساتھ معاشرتی آگاہی کے ضمن میںمیڈیا اور مقامی سماجی تنظیموں وحلقوں کے ذریعے خواتین کے حقوق کے حوالے سے آگاہی پیدا کی جائے، جبکہ خواتین کی معاشی خودمختاری کے طورپرخواتین کو کاروبار اور ہنر سکھانے کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ خودمختار بن سکیں۔
اس سلسلے میںسرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کا کردار بہت اہم ہے کہ سماجی تنظیمیں اورحکومتی ادارے مل کر خواتین کی بہبود اور حقوق کے تحفظ کے لیے کام کریں۔جنوبی پنجاب میں خواتین پر ہونے والے مظالم کا خاتمہ صرف تب ممکن ہے،جب حکومت، سول سوسائٹی، اور عوام مل کر کام کریں گےکیونکہ خواتین کے ساتھ انصاف اور مساوات نہ صرف ایک انسانی حق ہے بلکہ معاشرتی حق بھی ہے جو انہیںملنا چاہیے۔
زیست نازجنوبی پنجاب کی سینیئر صحافی ہیں اور مختلف معاشرتی موضوعات پر لکھتی رہتی ہیں