صفورا امجد
ماحولیاتی تبدیلیوں کا اثر صرف ایک سائنسی مسئلہ نہیں ہے بلکہ زندگی اور موت کا معاملہ بن چکا ہے۔ پاکستان، جو کبھی قدرتی حسن، دریاؤں ، نہروں کی وجہ سے جانا جاتا تھا آج ماحولیاتی بحران کا شکار ہے۔ پاکستان کے قیام کے وقت جنگلات کا رقبہ 5 فیصد تھا جو آہستہ آہستہ کم ہوتے ہوئے تین فیصد سے بھی کم رہ گیا ہے۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے بہت زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے ۔جون 2024 میں سندھ کے کئی شہروں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سے تجاوز کر گیا تھا ۔خصوصا جیکب آباد، لاڑکانہ اور دادو جیسے شہر دنیا کے گرم ترین شہروں میں شمار ہونے لگے۔
سردیوں کی آمد سے پہلے پنجاب کے مختلف شہروں خصوصاً لاہور میں سموگ کا راج رہتا ہے ۔لاہور گزشتہ برسوں میں کئی بار دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار ہوا ہے، جہاں AQI یعنی ایئر کوالٹی انڈیکس کی سطح 400 سے تجاوز کر چکی ہے، جو عالمی ادارۂ صحت کے مطابق انسانی صحت کے لیے خطرناک حد ہے جس سے نہ صرف لوگوں کو سانس لینے میں دشواری آتی ہے بلکہ دل کے امراض میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
ایک نئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ فضائی آلودگی دماغ پر بھی برے اثرات ڈالتی ہے جس کے نتیجہ میں ڈپریشن جیسی ذہنی کیفیات جنم لیتی ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان کو پچھلے سال تقریباً دو ارب امریکی ڈالر کا نقصان ہوا ہے جو کہ زراعت اور صحت پر شدید اثر ڈالتا ہے۔ سموگ کی بڑی وجوہات میں فصلوں کی باقیات جلانا ، گاڑیوں کا دھواں اور صنعتی آلودگی شامل ہے ۔ WHO کے مطابق سموگ سے متاثرہ علاقوں میں بچوں اور بزرگوں میں سانس ، دل اور آنکھوں کی بیماریاں کئی گنا بڑھ چکی ہیں ۔
موسمیاتی تبدیلیوں سے جو مسائل درپیش آتے ہیں اُن کے حل کے لیے پاکستان نے کچھ اقدامات کیے ہیں. 10 بلین ٹری سونامی، جس کے تحت اب تک 2 ارب سے زیادہ درخت لگائے جاچکے ہیں۔ پنجاب اور سندھ میں ماحولیاتی پالیسیاں مرتب کی گئی ہیں جن میں گرین ٹرانسپورٹ،مکین انرجی اور شہری سبز ترقی کے اہداف شامل ہیں۔ پلاسٹک آلودگی بھی کئی سالوں سے شدت اختیار کر گئی ہے۔
پاکستان ہر سال تقریباً 30 لاکھ ٹن پلاسٹک ویسٹ کرتا ہے مگر اس میں سے صرف 9 فیصد ری سائیکل کرتا ہے ۔ باقی سب ندیوں، نالوں میں بہہ کر آبی حیات کے لیے نقصان کا باعث بنتا ہے ۔ حکومت نے اس صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے شاپنگ بیگز پر پابندی لگائی ہے۔
عالمی یوم ماحولیات 2025 کی تھیم "پلاسٹک آلودگی کا خاتمہ” پاکستان کی ضروریات سے مکمل مطابقت رکھتی ہے، شیری رحمان کا کہنا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کو چاہیے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو ماحولیاتی نقصان کی تلافی کے لیے مالی مدد فراہم کریں۔ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنا اب صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں، اس کے لیے ہر فرد ، تعلیمی ادارے ، صنعت اور میڈیا سب کی مشترکہ کوشش درکار ہیں۔ ہمیں اپنی روزمرہ زندگی میں ایسے طریقے اپنانے ہوگے جو ماحول دوست ہوں۔ پلاسٹک سے پر پیز، درختوں کی بے جا کٹائی پر خصوصی توجہ دینا ہوگی.
اگر اس طرح کے اقدامات اب بھی نہیں کیے گئے تو مستقبل میں ہم نہ صرف قدرتی حسن کھو دیں گے بلکہ ہمیں ایک خطر ناک بیمار اور بے رحم دنیا میں جینا ہوگا، عالمی یوم ماحولیات ہمیں یاد دلاتا ہے کہ زمین ہمارے پاس ایک امانت ہے، جبکہ امانت میں خیانت کا انجام ہمیشہ پچھتاوے میں ہوتا ہے۔