خالد جاوید بخاری
سترہ سالہ سوشل میڈیا انفلوئنسر ثنا یوسف کے بہیمانہ قتل نے پاکستان بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف ایک کم عمر لڑکی کی جان لینے کا المیہ ہے، بلکہ معاشرے میں پنپتی ہوئی نفسیاتی بیماریاں، سوشل میڈیا کے خطرات، اور خواتین کی حفاظت میں ناکامی کی عکاسی بھی کرتا ہے.اس واقعے کے پس منظر، وجوہات اور اس سے پیدا ہونے والے سماجی، قانونی اور اخلاقی پہلوؤں کا جائزہ ہمارے معاشرے کا ایک منظر نامہ پیش کرتا ہے۔
ثنا یوسف نے بارہا ملزم کی "دوستی کی پیشکش” کو رد کیا، جو اس کے انکار کو برداشت نہ کر سکا۔ یہ رویہ پاکستان کے اس زہریلے مردانہ کلچر کی عکاسی کرتا ہے جس میں خواتین کی خودمختاری کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ جب عورت "نہ” کہتی ہے، تو بعض مرد اسے اپنی توہین سمجھتے ہیں، جو گھریلو تشدد اور قتل جیسے سنگین جرائم تک لے جا سکتا ہے۔
ملزم کی عمر 22 سال ہے، اور وہ ثنا پر ایک طرح کا "ذاتی حق” سمجھ بیٹھا تھا، جو اس کی نفسیاتی ناپختگی اور بیمار ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس طرح کے قاتل اکثر شدید احساسِ محرومی، حسد اور ناکامی کے شکار ہوتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر مشہور ہونے والی خواتین انفلوئنسرز کو عموماً غیر ضروری توجہ، پیغامات، اور ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ثنا یوسف کے قتل سے واضح ہوتا ہے کہ آن لائن ہراسانی حقیقی دنیا میں مہلک نتائج پیدا کر سکتی ہے۔
قاتل کا بارہا سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ کرنا، گھر کا پتہ معلوم کرنا اور گھنٹوں انتظار کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ متاثرہ کی نجی معلومات تک باآسانی رسائی ممکن تھی۔ اس سے ڈیجیٹل دنیا میں پرائیویسی اور تحفظ کے شدید فقدان کا انکشاف ہوتا ہے۔
اسلام آباد پولیس نے ملزم کو فیصل آباد سے گرفتار کیا اور مقتولہ کا موبائل برآمد کیا، جو قابلِ ستائش اقدام ہے۔ تاہم یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی بھی کرتا ہے کہ پولیس اور دیگر ادارے خواتین کے تحفظ میں ابھی تک فعال اور پیشگی کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔
پاکستان میں خواتین کو آن لائن یا آف لائن ہراسانی سے بچانے والے قوانین (جیسے PECA 2016 اور خواتین تحفظ ایکٹ) یا تو غیر مؤثر ہیں یا ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ ایسے کیسز میں اکثر متاثرہ کی شکایات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔
ملزم میٹرک پاس تھا اور سوشل میڈیا کا استعمال کر رہا تھا، لیکن اس میں جذباتی تربیت، سوشل ایٹی کیٹس، اور صنفی احترام کا شدید فقدان تھا۔ تعلیم کا مقصد صرف ڈگری نہیں، بلکہ شعور اور برداشت پیدا کرنا بھی ہوتا ہے، جو یہاں مفقود نظر آتا ہے۔
ملزم کے والد ایک سرکاری ملازم تھے، لیکن اس کے باوجود وہ ایک پرتشدد اور جنونی رویہ رکھنے والا فرد نکلا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف معاشی حیثیت یا سرکاری ملازمت کا ہونا ایک فرد کو سماجی ذمہ داری نہیں سکھاتا، جب تک تربیت اور اقدار نہ ہوں۔
خواتین انفلوئنسرز اور عام صارفین کی آن لائن حفاظت کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے الرٹ اور رپورٹنگ سسٹمز بنانا چاہیے۔ تعلیمی اداروں میں صنفی احترام، انکار کی قبولیت، اور جذباتی تربیت پر مشتمل تربیتی سیشنز لازمی قرار دیے جائیں۔ PECA اور خواتین تحفظ قوانین پر مؤثر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے، اور سوشل میڈیا ہراسانی کو سنگین جرم کے طور پر لیا جائے نیز خواتین کو آن لائن ہراسانی کی شکایت کا فوری اور محفوظ ذریعہ فراہم کیا جائے، جس میں ایف آئی اے اور پولیس کا مربوط نیٹ ورک ہو اور نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے استعمال، حد بندیوں، اور دوسروں کی پرائیویسی کے احترام کی باقاعدہ تربیت دی جائے۔
ثنا یوسف کا قتل ایک انفرادی سانحہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی ناکامی کا ثبوت ہے۔ یہ واقعہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم بطور معاشرہ اپنی ترجیحات، تربیتی نظام، اور قانونی ڈھانچے پر ازسرِ نو غور کریں۔ سوشل میڈیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی دنیا میں خواتین کی آزادی اور تحفظ کو یقینی بنانا ہماری ریاست اور سماج دونوں کی اولین ذمہ داری ہے۔ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ فیصل آباد میں درخواستوں کی تعداد زیادہ ہے لیکن ایف آئی اے سائبر ونگ کو درخواستوں کو مہینے لٹکانے کی بجائے دنوں اور گھنٹوں میں معاملات حل کریں تو ایسے واقعات رونما ہونے سے پہلے ایسے بیمار ذہن افراد کے سافٹ وئیر اپ ڈیٹ کئے جا سکتے ہیں۔
سینیئر قانون دان ہیں اور مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔
پدر شاہی کرتے ہم نے اپنے بیٹوں کی تربیت ہی نہیں کی بلکہ ہمیشہ عورت پہ تنقید،پابندی اور اس طرح کے غلط الزامات ہی زینت بنائے رکھے ہمارے باپ اور ماؤں نے ہمیں نہیں سکھایا کہ عورت کی عزت و احترام اور شخصی آزادی اتنی قابل قدر اور اہمیت کی حامل ہے جتنی مرد کی