پاکستان فلم انڈسٹری کے نامور اداکار محمد سلطان عرف سلطان راہی کو مداحوں سے جدا ہوئے 29 سال بیت گئے۔فلم انڈسٹری کے سلطان نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز 1956ء میں ریلیز ہونے والی ایک فلم باغی میں ایکسٹرا کے کردار سے کیا تھا، اس کے بعد انہیں فلم بشیرا کے ایک کردار نے عوام کا مقبول اداکار بنا دیا۔سلطان راہی کو لالی ووڈ میں شہرہ آفاق مقبولیت اور شناخت حقیقی معنوں میں اس وقت ملی جب ان کی فلم مولا جٹ سینما گھروں کی زینت بنی۔ اس کے بعد ان کی کامیابیوں کا سفر شروع ہوگیا۔سلطان راہی نے پنجابی کے ساتھ ساتھ اردو فلموں میں بھی اداکاری کے جوہر دکھائے اور اپنے ان کرداروں میں بھی عوام کے دلوں پر راج کیا۔
سلطان راہی بچپن سے ہی مذہب کے انتہائی قریب تھے اور جوانی میں جب انہیں فلم انڈسٹری میں کامیابی ملی تو خدا سے ان کا رشتہ مزید مضبوط ہوگیا۔ وہ پانچ وقت کے نمازی اور رمضان المبارک میں باقاعدگی سے روزے رکھنے والے انسان تھے ۔ گھر ہو یا سٹوڈیو ، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ان کی کوئی نماز قضا ہوئی ہو۔ سلطان راہی کی اللہ سے قربت کا یہ عالم تھا کہ انہوں ںے اپنے ذاتی سرمائے سے کئی مساجد کروائیں اور کئی یتیم بچیوں کی شادی بھی کروائی۔ ایک بار بالاکوٹ میں فلم کی شوٹنگ کیلئے جاتے ہوئے راستے میں ان کی نظر ایک بند مسجد کے دروازے پر پڑی تو انہوں نے گاڑی روک کر مسجد کے تالے کھلوائے ، اس کا فرش دھویا ، اذان دی اور پھر اسی مسجد میں نماز کی امامت کروائی ۔ اس کے علاوہ ان کی تلاوت کلام پاک اور نعتوں کی سی ڈیز بھی ریلیز ہوئیں جنہیں فقید المثال شہرت ملی ۔
سلطان راہی خود بطور فائٹر فلم انڈسٹری میں آئے تھے اس لئے عروج پر پہنچنے کے باوجود ان کی فلم فائٹرز سے قربت کسی طور کم نہ ہوئی ۔ انہوں ںے فلم انڈسٹری کے ان فائٹرز کیلئے باقاعدہ طور پر وظیفہ مقرر کر رکھا تھا لیکن ان کے بااعتماد لوگوں کے سوا کسی کو اس کا علم نہیں تھا ۔ سلطان راہی نے متعدد اداکاروں کے ساتھ فلم میں کام کیا لیکن ان کے مقابل اداکار مصطفیٰ قریشی ہی سب سے زیادہ مناسب دکھائی دیئے۔ سلطان راہی نے یوں تو اداکارہ آسیہ ، گوری ، نادرہ ، بابرہ شریف ، دردانہ رحمان سمیت تمام نامور اداکارائوں کے ساتھ کام کیا لیکن ان کی فلمی جوڑی اداکارہ انجمن کے ساتھ سب سے زیادہ مقبول ہوئی۔
سلطان راہی نے اپنے کیریئر کے دوران تقریباً 8 سو فلموں میں کام کیا ۔ فلموں کی اتنی بڑی تعداد اور دن میں مسلسل 18 ، 18 گھنٹے کام کرنے کی وجہ سے ان کا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی شامل کیا گیا۔ سلطان راہی کو 9 جنوری 1996 کو گوجرانوالہ بائی پاس پر ڈکیتی کی ایک واردات کے دوران مزاحمت پر قتل کر دیا گیا تھا لیکن 29 برس گزرنے کے بعد بھی ان کے قاتل آج بھی قانون کی حراست میں نہیں آسکے. سلطان راہی کی موت کے وقت بھی ان کی 50 کے قریب فلمیں زیر تکمیل تھیں جس سے فلمسازوں کو لاکھوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ سلطان راہی کی زندگی میں ہی ان کے بیٹے حیدر سلطان نے فلم انڈسٹری میں قدم رکھا اور کئی فلموں میں مرکزی کردار ادا کئے لیکن وہ اپنے والد کی طرح مقبولیت حاصل نہیں کرسکے اور فلم انڈسٹری سے کنارہ کشی اختیار کر کے بیرون ملک چلے گئے۔ سلطان راہی کی موت سے پنجابی فلم انڈسٹری کو جو نقصان ہوا اس کو پورا کرنا یقیناً ناممکن ہے۔