صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے نزدیک سنجدی میں کوئلے کی کان سے مزید سات کان کنوں کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں۔سرکاری حکام کے مطابق جمعرات کے روز شام چھ بجے کے قریب ایک نجی کان میں گیس بھر جانے سے دھماکے کے بعد 12 مزدور کان میں پھنس گئے تھے۔
جمعے کے روز 12 کان کنوں میں سے چار کی لاشیں نکال لی گئی تھیں۔ تاہم زیادہ گہرائی میں پھنسے ہونے کے باعث دیگر کان کنوں تک پہنچا نہیں جا سکا تھا۔صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) بلوچستان کی جانب سے جاری ایک اعلامیے کے مطابق متبادل راستے سے پی ڈی ایم اے، محکمہ مائنز اور کان کنوں پر مشتمل ٹیم کان میں 3900 فٹ کی گہرائی تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی۔
چیف انسپکٹر مائنز عبدالغنی بلوچ نے بتایا کہ گذشتہ شب کان میں پھنسے مزدوروں میں سے سات کان کنوں کی لاشیں نکال لی گئیں۔ان کا کہنا تھا کہ اب صرف ایک کان کن رہ گیا ہے جس کی تلاش کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
دوسری جانب انسپکٹوریٹ آف مائنز نے کان میں مزدوروں کی حفاظت کے لیے مناسب انتطامات نہ ہونے پر کان کے مالک اور دیگر ذمہ داران کے خلاف قانونی کاروائی کا فیصلہ کرتے ہوئے ان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے ڈپٹی کمشنر کو مراسلہ بھیج دیا ہے۔
دریںاثناءبلوچستان کے ضلع دکی میں بھی ہفتے کے روز کوئلے کی ایک کان میں تودہ گرنے سے ایک کان کن ہلاک ہو گیا۔دُکی پولیس کے مطابق ہلاک ہونے والے کان کن محمد رمضان کا تعلق بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ سے تھا۔
بلوچستان کی کوئلہ کانوں میں حفاظتی انتظامات نہ ہونے کے باعث ہر سال حادثات میں کان کنوں کی ایک بڑی تعداد ہلاک اور زخمی ہوتی ہے۔تاہم پاکستان سنٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے سیکرٹری جنرل لالہ سلطان نے دعویٰ کیا ہے کہ بلوچستان میں سال2024ء کے دوران ایسے حادثات میں129کان کن ہلاک ہوئے۔تاہم چیف انسپیکٹر آف مائنز عبدالغنی بلوچ صوبے میں کان کنی کے دوران ہونے والے حادثوں میں ہلاکتوں کی تعداد 82 بتاتے ہیں۔
بلوچستان کے وزیر معدنیات میر شعیب نوشیروانی کا کہنا ہے کہ کانوں میں حفاظتی اقدامات نہیں ہونے پر سخت کارروائی کی جائے گی۔ان کا کہنا ہے کہ کانوں میں حفاظتی اقدامات کو یقینی بنانے کے لیے انتظامیہ نئی حکمت عملی پر کام کر رہی ہے.