Untitled 2025 06 04T233113.666

نجی سکول ، گرمیوں کی فیس اور والدین کی آزمائش

صفورا امجد

پرائیویٹ سکولوں نے گرمیوں کی چھٹیوں میں فیس نہیں لینے کے حکومتی احکامات کی دھجیاں اڑانے کے ساتھ پرائیویٹ سکولوں نے والدین کو گرمیوں کی چھٹیوں کےدوران فیس ادائیگی میں ملنے والے ریلیف کے حکومتی احکامات نظر انداز کر دیئے،جس کی وجہ سے گرمیوں کی فیس ادائیگی والدین کیلئے آزمائش بن گئی ہے۔

نجی سکول تعطیلات کے باوجود دو ماہ (جون، جولائی) کی فیس طلب کرتے ہیں حالانکہ بچے اس دوران سکول بھی نہیں جاتے کچھ سکول والدین سے یہ ڈیمانڈ بھی کرتے ہیں کہ دونوں مہینوں کی فیس اکٹھی جمع کرائیں،ورنہ بچےکےامتحانی نتائج روک دیئے جائیں گے جو کہ سراسر زیادتی ہے۔

ملک بھر میں تقریباً ایک لاکھ 20 ہزار 527 نجی سکول موجود ہیں، جو کہ کل سکولوں کا 38 فیصد بنتے ہیں۔ ان اداروں میں تقریباً 2 کروڑ 27 لاکھ بچے زیرِ تعلیم ہیں، جو پاکستان کے مجموعی سکول جانے والے بچوں کا 44 فیصد ہیں۔ اگرچہ ان سکولوں میں تعلیمی معیار نسبتا بہتر تصور کیا جاتا ہے اور ملازمت پیشہ طبقہ اپنے بچوں کو نجی سکولوں پڑھانے کو ترجیح دیتا ہے.
Untitled 2025 06 04T233121.983
حالیہ برسوں میں نجی سکولوں نے ایک نیا رجحان اپنایا ہے کہ وہ تعطیلات کے مہینوں میں ہاف سیشن ، سیپرٹ فیس یا ڈبل فیس کے نام سے اضافی پیسے لیتے ہیں اور والدین کو بغیر اطلاع اضافی فیس ادا کرنا ہوتی ہے۔ملک میں مہنگائی کی وجہ سےجہاں زندگی کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا مشکل ہو گیا ہے وہیں یہ بے جا سکول فیس سراسر نا انصافی اور استحصال کے زمرے میں آتی ہے۔ بعض والدین بچوں کی فیس ادا کرنے کے لیے قرض لیتے ہیں یا پھر اپنی ضروریات میں کٹوتی کرتے ہیں۔

والدین کا کہنا ہے کہ جون ، جولائی میں بجلی کے بل بھرنا مشکل ہو جاتا ہے اور ساتھ ہی یہ دو مہینوں کی فیس کسی عذاب سے کمُ نہیں والدین اکثر سکول انتظامیہ سے بحث و تکرار بھی کرتے ہیں لیکن کوئی خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوتے ۔

چئیرمین سکولز ایسوسی ایشن کا مؤقف ہے کہ ہر سال دسمبر میں نوٹیفکیشن جاری کیا جاتا ہےکہ جنوری سے مئی تک والدین جون، جولائی کی فیس ادا کر سکتے ہیں تاکہ والدین پر معاشی دباؤ ایک ساتھ نہیں ہو۔ نجی سکول یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ سکول بند ہو یا کھلے ہم اساتذه، سٹاف، سیکیورٹی ، کرایہ اور دیگر اخراجات ہر مہینے ادا کرتے ہیں، ملازمین کو تنخواہ دینا ادارے کی اخلاقی و قانونی ذمہ داری ہے۔ لہذا اس مقصد کے لیے فیس لی جاتی ہے.

ایک نجی سکول کی پرنسپل سے گفتگو کرنے پر انہوں نے اپنا مؤقف پیش کیا کہ ہم قابل اور تجربہ کار اساتذہ سے تدریسی خدمات لیتے ہیں اور طلبہ کی نصابی سرگرمیوں پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ والدین پر کم از کم بوجھ پڑے لیکن بڑھتی ہوئی مہنگائی، یوٹیلٹی بلز، اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافہ مجبور کرتا ہے کہ ہم وقتاً فوقتاً فیسوں کو ایڈجسٹ کریں۔ ہماری فیسوں کا مقصد صرف منافع کمانا نہیں بلکہ سکول کے معیار کو بھی برقرار رکھنا ہے۔

سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس بھی یہ فیصلہ سنا چکی ہیں کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں نجی سکول فیس نہیں لے سکتے مگر ان عدالتی فیصلوں کے بارے میں نہیں ہی والدین کو علم ہوتا ہے اور نہ ہی سکول انتظامیہ ان فیصلوں پر کان دھرتی ساتھ ہی ساتھ والدین کو اس بات کا خطرہ بھی لاحق ہوتا ہے کہ بچوں کو ہراساں نہیں کیا جائے یا پھر سکول سے نہیں نکال دیا جائے ۔

نجی سکولوں کی طرف سے گرمیوں کی چھٹیوں کی فیس لیناتعلیمی نظام پر ایک سوالیہ نشان بن کر ابھرا ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ تعلیم جیسے مقدس شعبے کو بھی ایک منافع بخش پیشہ بنا دیا گیا ہے جہاں خدمت سے زیادہ کمائی کو اہمیت دی جارہی ہے۔حکومت کو چاہیے کہ اس معاملے میں ایک واضح قانون بنائے اور اس قانون کو عملی طور پر نافذ کرے ۔حکومت، عدلیہ اور تعلیمی اداروں کو مل کر ایسے اصول بنانے چاہییں جن سے نہ صرف والدین کا اعتماد بحال ہو، بلکہ تعلیم بھی سب کے لیے آسان اور قابلِ رسائی ہو۔

Untitled 2025 05 11T003709.473
صفورا امجد، ویمن یونیورسٹی ملتان کے شعبہ ابلاغ عامہ کے آٹھویں سمسٹر کی طالبہ ہیں۔ میڈیا، مواصلات اور سماجی مسائل کے بارے میں پرجوش ہونے کے ساتھ، وہ کہانی سنانے اور صحافت کے ذریعے بیداری اور تبدیلی لانے کے لیے اپنی آواز کا استعمال کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں