WhatsApp Image 2025 01 07 at 01.26.55

ماحولیاتی تبدیلی سے نبردآزماہوتی حاملہ خواتین

سحرش بتول

پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے خواتین اور لڑکیاں نمایاں طور پر متاثر ہو رہی ہیں۔ اگرچہ متاثرہ خواتین اور لڑکیوں کی مخصوص تعداد یا فیصد کے بارے میں محدود اعداد و شمار دستیاب ہیں، تاہم کچھ مطالعات اور رپورٹس اس مسئلے کی سنگینی کو اجاگر کرتی ہیں۔

اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (UNFPA) کے مطابق، اگست 2022 میں پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں تقریباً 650,000 حاملہ خواتین موجود تھیں، جنہیں صحت کی سہولیات تک رسائی میں مشکلات کا سامنا تھا۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بے گھر ہونے والے ہر 5 افراد میں سے 4 خواتین ہوتی ہیں، جو ان آفات کے دوران خواتین کی زیادہ متاثر ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔

ملتان، جو کہ پہلے ہی موسمیاتی تبدیلیوں کے شدید اثرات کا شکار ہے،سال 2024ء میں بدترین سموگ اور غیر متوقع موسم کی شدت سے متاثر ہوا۔یہاں‌ کی رہائشی آمنہ ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی خاتون ہے جو اپنی پہلی اولاد کے انتظار میں آٹھویں مہینے کی حاملہ تھی اورآمنہ کے لیے یہ وقت خوشی کے بجائے مشکلات اور پریشانیوں کا سبب بن گیا۔
WhatsApp Image 2025 01 07 at 01.26.56
سردیوں کے دوران سموگ اتنی زیادہ تھی کہ گھر سے باہر نکلنا ناممکن ہو گیا۔ آمنہ کو سانس لینے میں دشواری ہونے لگی، اور اس کا سانس بار بار پھولنے لگا۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ یہ سب سموگ کی وجہ سے ہے، جو نہ صرف آمنہ بلکہ اس کے ہونے والے بچے کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ گھر میں رہنے کی کوشش کے باوجود، آلودگی سے بچنا ممکن نہیں تھا کیونکہ ہوا کی کوالٹی بہت خراب تھی۔ آمنہ کے شوہر نے ماسک کا انتظام کیا، لیکن سموگ کی شدت کے سامنے یہ ناکافی ثابت ہوا۔ آمنہ نے محسوس کیا کہ اس کے پھیپھڑے کمزور ہو رہے ہیں، اور ہر بار ہسپتال جانے کا سفر اس کے لیے ایک اذیت بن گیا۔

جنوری میں غیر متوقع شدید بارشوں نے سردی کو مزید بڑھا دیا۔ نکاسی آب کے ناقص نظام کی وجہ سے گلیاں پانی میں ڈوب گئیں، اور ہسپتال جانا آمنہ کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گیا۔ ان بارشوں کے دوران ان کے گھر کی چھت بھی ٹپکنے لگی، جس کی وجہ سے نمی نے آمنہ کی تکلیف میں اضافہ کیا۔ سردی کے موسم میں بجلی کی لوڈشیڈنگ نے حالات مزید خراب کر دیے۔ ہیٹر بند ہونے کی وجہ سے آمنہ کو راتیں کمبل میں لپٹ کر گزارنی پڑیں، اور اکثر اس کی انگلیاں سردی سے سن ہو جاتیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے خوراک کی قیمتیں بھی بڑھ گئیں، جس سے آمنہ کے لیے متوازن غذا لینا مشکل ہو گیا۔ حاملہ ہونے کے باوجود، وہ اپنی خوراک میں کمی کرتی رہی تاکہ اخراجات کم کیے جا سکیں، لیکن اس کا اثر اس کی صحت پر پڑا۔ جسمانی مشکلات کے ساتھ ساتھ، آمنہ ذہنی دباؤ کا بھی شکار ہو گئی۔ وہ ہر وقت اس فکر میں مبتلا رہتی کہ یہ حالات اس کے بچے پر کیا اثر ڈالیں گے۔
WhatsApp Image 2025 01 07 at 01.26.56 1
گھر کے حالات بھی آمنہ کے لیے مزید مشکلات پیدا کر رہے تھے۔ بارش کے پانی کی وجہ سے گھر میں حشرات بڑھ گئے تھے، اور وہ مچھروں سے بچنے کے لیے رات کو نیند میں بھی پریشان رہتی تھی۔ مچھروں کے کاٹنے کے خوف کے ساتھ ساتھ ڈینگی اور ملیریا جیسی بیماریوں کا خطرہ بھی بڑھ گیا تھا۔ آمنہ کے لیے راتوں کو سونا ایک چیلنج بن گیا، اور نیند کی کمی نے اس کی جسمانی اور ذہنی حالت کو مزید خراب کر دیا۔

ان تمام مشکلات کے باوجود، آمنہ نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ اور اس کے شوہر نے گاؤں جا کر کچھ دن صاف ہوا میں گزارے تاکہ وہ سکون حاصل کر سکے۔ گاؤں میں زندگی بہتر تھی، لیکن وہاں بھی طبی سہولیات کی کمی ایک بڑا مسئلہ تھا۔ آمنہ نے گاؤں میں اپنی صحت کو بہتر بنانے کی کوشش کی اور مقامی دیسی علاج کا سہارا لیا، لیکن اس کے دل میں یہ خوف ہمیشہ رہا کہ کیا یہ سب اس کے بچے کی صحت کے لیے کافی ہوگا۔

آمنہ کی کہانی موسمیاتی تبدیلیوں کے ان اثرات کو اجاگر کرتی ہے جو حاملہ خواتین جیسے کمزور طبقات پر پڑتے ہیں۔ سموگ، غیر متوقع بارشیں، اور سردی نے نہ صرف آمنہ کی جسمانی صحت بلکہ ذہنی سکون کو بھی متاثر کیا۔ یہ کہانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات صرف ماحول تک محدود نہیں ہیں بلکہ انسانی زندگیوں کو بھی براہ راست متاثر کرتے ہیں۔اگرچہ متاثرہ خواتین اور لڑکیوں کی مخصوص فیصد کے بارے میں محدود معلومات دستیاب ہیں، تاہم موجودہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے خواتین اور لڑکیاں نمایاں طور پر متاثر ہو رہی ہیں۔ ان کی صحت، معاشی حالت، اور مجموعی زندگی کے معیار پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، جس کے تدارک کے لیے مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے.
WhatsApp Image 2025 01 07 at 01.35.38
سحرش بتول ویمن یونیورسٹی ملتان کے شعبہ میڈیاسٹڈیز کی طالبہ ہےاور یونیورسٹی کا ڈیجیٹل پلیٹ فارم چلانے کے ساتھ شعبہ صحافت میں کامیابی کے لئے کوشاں‌ہے.

اپنا تبصرہ لکھیں