fe219c08 129c 405a 85e4 f64f2c554bf7

پاکستان کا شکاگو: جب کالونی ٹیکسٹائل ملز ملتان میں 133 مزدور شہید کر دئیے گئے

دنیا بھر میں مزدوروں کے حقوق کیلئے تحریکیں فعال ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ یومِ مئی ان مزدور شہدا کی یاد میں منایا جاتا ہے جنہیں 1886ءمیں امریکی شہر شکاگو کی ’ہے مارکیٹ‘ میں پولیس فائرنگ سے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ یہ مزدور اپنے اس مطالبے کے حق میں مظاہرہ کر رہے تھے کہ انکے اوقاتِ کار آٹھ گھنٹے سے زیادہ نہیں ہونے چاہئیں۔ان مزدوروں کی جدوجہد کی یاد میں یوم مئی منایا جاتا ہےپاکستان میں بھی محنت کشوں کےساتھ ایسے واقعات ہو چکے ہیں جو شکاگو سے بھی کہیں زیادہ خونی اور وحشیانہ تھے۔ جس میں سے ایک واقعہ سانحہ کالونی ٹیکسٹائل ملز کا ہے جو آج بھی مزدوروں کی تحریک کا ایک سیاہ باب ہے۔سانحہ کالونی ٹیکسٹائل ملز ملتان کے شہداکی47ویں برسی آج منائی جارہی ہے۔

ملز مزدوروں پر 2جنوری 1978ء کو اس وقت فائرنگ کی گئی جب وہ اپنے حق کے لیے احتجاج کررہے تھے اس واقعہ میں 133 مزدور شہید ہوگئے تھے اور اسے مزدور تحریک کے حو الے سے اہم ترین اور تاریخ کے بدترین واقعات میں شمار کیاجاتا ہے۔کالونی ملز فائرنگ میں کتنے مزدور لقمہ اجل بنے یہ راز اب تک حل نہیں ہوسکا۔مزدوروں کی تعدادکے بارے میں مختلف دعوے کیے گئے۔اس واقعہ کی تحقیقات کامطالبہ بھی کیاجاتا رہا لیکن عملی طورپر اس کے ذمہ دار افراد گرفت میں نہ آسکے۔

کالونی ٹیکسٹائل ملز 1960ء میں شروع کی گئی۔ اس میں روئی سے دھاگہ اور دھاگہ سے کپڑا بنانے کا مکمل کام کی جاتا تھا۔ بنتے وقت اسے جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی مل ہونے کا فخر حاصل تھا۔مل میں ورکرز کے لیے رہائشی کالونیاں، بوائز اور گرلز ہائی اسکولز، مارکیٹ، ڈاکخانہ اسماعیل آباد، ہسپتال، ڈرامیٹک ہاوس، پارک، کھیل کے میدان، گولف کورس، ریسٹ ہاوس اور قریب ہی مظفرآباد ریلوے سٹیشن بھی بنایا گیا۔تاہم وقت کے ساتھ بجائے اس کے کہ کالونی کو اپنے اچھے اقدامات کی وجہ سے پہچانا جاتا آج بھی اس کو مزدوروں پر ڈھائے جانے والے مظالم نے شناخت دے رکھی ہے۔

یہ قتل عام ضیا آمریت کا پاکستانی مزدوروں کے لئے ایک پیغام تھا۔ مزدوروں نے سوشلسٹ نظریات اپنا لیے تھے۔ کالونی ٹیکسٹائل ملز کا واقعہ اقتدار پر قبضے کے ایک سال بعد ضیا آمریت کی طرف سے دی جانے والی پہلی خونی وارننگ تھی۔

جب 1977ءمیں بھٹو حکومت کا تختہ الٹا گیا تو یہ توقع کی جارہی تھی کہ ضیا الحق کی آمریت بھٹو دور کی زرعی اصلاحات اور نیشنلائزیشن کا خاتمہ کر دے گی۔ ان لوگوں نے بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک کی حمایت کی تھیبھٹو حکومت ختم ہونے کے بعد مزدوروں کو نہ تو بونس ملا تھا نہ ہی دیگر مراعات جو ان کا حق تھیں۔ جبکہ مل کے منافعے میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ مزدور یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ سیاسی تبدیلی کے بعد مالکان کے حوصلے بہت بڑھ گئے تھے۔جس پر کالونی ٹیکسٹائل ملز کے 1300 مزدور اپنے حقوق کی آواز بنتے ہوئے ہڑتال پر چلے گئے۔

راوی بیان کرتے ہیں کہ کالونی ٹیکسٹائل ملز کے مالک شیخ مغیث کے جنرل ضیا سے اچھے مراسم تھے۔ دونوں کے درمیان یہ مراسم اس وقت بنے تھے جب جنرل ضیا ملتان میں کور کمانڈر تھا۔ شاید اسی دوستی کے زعم میں مل مالک کا رویہ مزدوروں کی جانب انتہائی متکبرانہ تھا۔

29 دسمبر 1977ءکو مزدور ہڑتال پر چلے گئے۔ انتظامیہ نے مزدور نمائندوں کو مذاکرات کےلئے بلایا۔ مزدوروں کی نمائندگی پیپلز لیبر یونین کر رہی تھی جس کے پاس سی بی اے کی حیثت تھی اور وہ یونین کا انتخاب جیت کر آئی تھی اور انتظامیہ سے قانونی طور پر مذاکرات کر سکتی تھی۔ 2 جنوری کو ہونے والے مذاکرات میں مل کی انتظامیہ، مارشل لا انتظامیہ، لیبر ڈیپارٹمنٹ اور یونین کے رہنما شامل تھے۔ مذاکرات میں مزدوروں کی جانب سے پیش کیے گئے مطالبات تسلیم کیے گئے تاہم صرف ایک بات پر اختلاف تھا کہ ہڑتال غیر قانونی ہے لہٰذا ہڑتال کے دوران جو دن ضائع ہوئے ان کی تنخواہ نہیں دی جائے گی۔ یونین نے درست طور پر یہ بات ماننے سے انکار کر دیا۔

مزدوررہنما کامریڈ یامین کہتے ہیں کہابھی مذاکرات ختم نہیں ہوئے تھے کہ مزدور مل میں جمع ہونا شروع ہو گئے اور وہاں پہلے سےموجود پولیس نے مزدوروں کو تتر بتر کرنے کے لئے لاٹھی چارج کر دیا۔ مزدور خوفزدہ ہو کر بھاگنے کی بجائے ڈٹ گئے۔ اکثر مزدور مل کے اندر رہائشی کالونی میں رہتے تھے۔ جب ان کے گھر والوں کو پتا چلا تو وہ بھی میدان میں آ گئے۔ جب مجمع بڑا ہو گیا تو پولیس نے گولی چلا دی اور ملتان کو پاکستان کا شگاگو بنادیا۔اس دن کو مزدور کبھی نہیں بھول سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں