ملتان: پاکستان ہارٹیکلچر ڈویلپمنٹ اینڈ ایکسپورٹ کمپنی (پی ایچ ڈی ای سی) نے جلالپور پیر والاملتان میں آم بیگنگ پائلٹ پراجیکٹ کا آغاز کر دیا ہے، جس کے ساتھ ایک ورکشاپ بھی منعقد کی گئی جس کا مقصد باغبانی کے جدید طریقوں سے آم کی کوالٹی بہتر بنانا اور برآمدی صلاحیت میں اضافہ کرنا تھا۔
ورکشاپ میں برآمدکنندگان، ترقی پسند کاشتکاروں اور صنعت سے وابستہ افراد نے شرکت کی۔ ماہرین نے آم بیگنگ کے فوائد پر روشنی ڈالی، جس سے پھل کے معیار میں بہتری، کیڑے مار ادویات کے استعمال میں کمی اور عالمی معیار کے مطابق پیداوار ممکن ہو پاتی ہے۔ورکشاپ میںبتایا گیا کہ پاکستان سالانہ 18 لاکھ ٹن آم پیدا کرتا ہے، لیکن معیار کی کمی کے باعث صرف 7 فیصد آم برآمد کیے جاتے ہیں۔
ایم این ایس یونیورسٹی آف ایگریکلچر کے وائس چانسلر، ڈاکٹر اشتیاق راجوانہ نے کہا کہ بیگنگ کی بدولت پاکستان کے آم کی عالمی سطح پر ساکھ بہتر ہوئی ہے۔پی ایچ ڈی ای سی کی جامع سپورٹ—جس میں معیار کی بہتری، مارکیٹ روابط، اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی شامل ہے—پاکستانی آم کو عالمی ممتاز مارکیٹس میں مقام دلانے، کسانوں کی آمدنی بڑھانے، اور باغبانی کے شعبے میں پائیدار ترقی کی راہ ہموار کر رہی ہے۔
پی ایچ ڈی ای سی کے سی ای او اطہر حسین کھوکھر نے کہا، "بیگنگ عالمی معیار کی پابندی کو یقینی بناتی ہے، جس سے برآمدکنندگان کو اعلیٰ مارکیٹس تک رسائی حاصل ہوتی ہے اور منافع میں اضافہ ہوتا ہے۔” منصوبے کے تیسرے سال میں پی ایچ ڈی ای سی نے چین سے درآمد شدہ اعلیٰ معیار کے ایک ملین آم بیگ تقسیم کیے ہیں۔ یہ بیگ، جو کہ سانس لینے کے قابل نان-وووَن مواد سے تیار ہوتے ہیں، زرعی زہر کے استعمال میں 50 فیصد تک کمی اور یکساں، دیرپا آم کی پیداوار کو ممکن بناتے ہیں۔
پی ایچ ڈی ای سی کے کنسلٹنٹ ڈاکٹر عظیم خان نے ادارے کی عالمی برآمدی حکمت عملی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا، "ہمارے تجارتی مشن برآمدکنندگان کو بین الاقوامی خریداروں سے جوڑ رہے ہیں۔ اسی طرح ایم این ایس یو اے ایم میں ای ڈی ایف فنڈڈ آم ڈرائی یونٹ جیسے منصوبے آم کی ویلیو ایڈیڈ مصنوعات، مثلاً خشک آم، کے مواقع پیدا کر رہے ہیں۔
"آم کے باغات کی دیکھ بھال، پھل اتارنے کے دوران اور بعد ازاں، موسمیاتی تبدیلیوں اور بیگنگ ٹیکنیکس کے تناظر میں” ماہر آم کاشتکاری، عبدالغفار گرورال نے بعد از برداشت دیکھ بھال اور موسمیاتی دباؤ سے نمٹنے کے لیے جدید تراش خراش اور غذائی انتظامات پر زور دیا۔ ایم این ایس یونیورسٹی آف ایگریکلچر ملتان کےڈاکٹر کاشف نے بتایا کہ بیگنگ کا بہترین وقت آم کے ’ماربل‘ مرحلے پر ہوتا ہے، اور 40 سے 45 دنوں تک بیگ لگے رہنے سے آم اعلیٰ معیار کے، داغ دھبوں سے پاک اور برآمدی تقاضوں پر پورا اترتے ہیں۔
ورکشاپ کے اختتام پر سوال و جواب کا سیشن ہوا، جس میں برآمدکنندگان نے پی ایچ ڈی ای سی کی کوششوں کو سراہا۔