لاہور: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عالیہ نیلم کا لاہور ہائیکورٹ کی 150 سالہ تاریخ میں پہلی بار سرکاری اخراجات میں نمایاں کمی کا فیصلہ
لاہور ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی نے "لازمی مانیٹائزیشن آف ٹرانسپورٹ فیسیلٹی” پالیسی کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرز پر باقاعدہ طور پر اپنانے کی منظوری دے دی ہے۔
اس پالیسی کے تحت لاہور ہائی کورٹ کے بی پی ایس 20 تا 21 کے افسران (اسٹیبلشمنٹ و کورٹ ) کو سرکاری گاڑیوں کے بجائے ماہانہ مونٹائزیشن الاؤنس دیا جائے گا، جس کا مقصد سرکاری وسائل کو مؤثر انداز میں استعمال کرنا ہے۔
اس ضمن میں جاری پالیسی کے مطابق مونٹائزیشن الاؤنس ان افسران کو دیا جائے گا جو موجودہ طور پر اصل کیڈر پر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ڈیپوٹیشن پر کام کرنے والے افسران اس سہولت کے اہل نہیں ہوں گے۔
یہ اقدام اسلام آباد ہائی کورٹ کے ماڈل کی طرز پر متعارف کرایا گیا ہے تاکہ گاڑیوں، ان کی دیکھ بھال، اور ایندھن پر آنے والے اخراجات کو محدود کیا جا سکے۔
بی پی ایس 19 کے افسران بھی اس پالیسی سے مشروط فائدہ اٹھا سکیں گے، تاہم اس کے لیے محکمہ خزانہ پنجاب کی منظوری درکار ہو گی۔
اہل افسران کو مقررہ شرح کے مطابق ماہانہ الاؤنس دیا جائے گا، جس میںبی پی ایس 21 کو 77,430 روپے، بی پی ایس 20 کو 65,960 روپے، بی پی ایس 19 کو 55,000 روپے ملیںگے.
ان رقوم کا ازسرنو تعین مستقبل میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں یا دیگر عوامل کی بنیاد پر لاہور ہائیکورٹ کی منظوری سے ہو سکے گا۔
جن افسران کو پہلے سے سرکاری گاڑیاں فراہم کی گئی ہیں، انہیں ان گاڑیوں کو مقررہ فارمولے کے مطابق کم قیمت پر خریدنے کا اختیار دیا جائے گا، بشرطیکہ وہ ایسا چاہیں جبکہ جو عدالتی افسران اپنے والدین محکمے کی گاڑیوں سے مستفید ہو رہے ہیں اور مونٹائزیشن الاؤنس نہیں لے رہے، وہ پی او ایل جیسی سہولیات حاصل کرنے کے اہل ہوں گے۔
اگر کوئی افسر گاڑی خریدنے سے انکار کرے تو وہ گاڑی ویہیکل کنڈیمنیشن کمیٹی کی سفارش پر نیلام کر دی جائے گی نیز ایسی گاڑیاں جنہوں نے اپنی طے شدہ سرکاری مدت مکمل نہیں کی، انہیں نیلامی یا خریداری کے لیے پیش نہیں کیا جائے گا۔
اس طرحپرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر کی ذمہ داری ہو گی کہ وہ گاڑیوں کی قیمتوں کے تعین میں شفافیت یقینی بنائے اور کمیٹی کی سفارشات کی منظوری دے جبکہ عدالت کے عمومی اور پروٹوکول فرائض کے لیے گاڑیوں کا علیحدہ پول برقرار رکھا جائے گا، جس کی تعداد کا تعین فاضل چیف جسٹس کریں گی۔
وفاقی یا صوبائی حکومت اور لاہور ہائیکورٹ کی متعلقہ شرائط و ضوابط اس پالیسی پر مکمل لاگو ہوں گی۔
اس سکیم کے تحت آنے والے تمام اخراجات لاہور ہائی کورٹ کے پرنسپل سیٹ اور منسلک بینچوں (LQ4112) کے مختص شدہ بجٹ گرانٹ سے پورے کیے جائیں گے۔
اس پالیسی پر عمل درآمد سے ایک طرف جہاں سرکاری گاڑیوں کا غیر ضروری استعمال محدود ہوگا، وہیں افسران کو زیادہ خودمختاری اور مالی سہولت میسر آئے گی۔ فاضل چیف جسٹس اور انتظامی کمیٹی کی جانب سے اسے ایک اصلاحی قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جس سے عدالتی نظام میں شفافیت اور کفایت شعاری کو فروغ ملے گا۔