حسیب اعوان
عدالت کا نام سنتے ہی ذہن میں چمکتا ہواایک ہی لفظ ابھرتا ہے—”انصاف”۔ یہی وہ مقدس امید ہے جو ہر فرد کو عدالت کے دروازے تک کھینچ لاتی ہے۔ مگر ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہر شخص اپنا مقدمہ مؤثر طریقے سے پیش کرنے کے لیے وکیل کی فیس ادا کرنے کی استطاعت رکھتا ہے؟
مفت قانونی معاونت محض ایک سہولت نہیں، بلکہ معاشرتی انصاف کا وہ عہد ہے جو پکارتا ہے:”انصاف صرف امیروں کی میراث نہیں!”۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے ملتان سمیت تمام ضلعی عدالتوں میں یہ سہولت موجود تو ہے، لیکن عدم آگاہی کے سبب اس کا استعمال نہیں ہونے کے برابر ہے۔ یہ نظام خاص طور پر ان غریب اور نادار افراد کے لیے بنایا گیا ہے جو اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے وسائل سے محروم ہیں۔ کئی بار تو یہی مفت قانونی امداد کسی مظلوم کی آواز بن جاتی ہے اور سالوں سے التواء کا شکار انصاف آخرکار اپنی منزل تک پہنچتا ہے۔
لیکن اس نظام کو مزید مؤثر بنانے کے لیے تین چیزوں کی اشد ضرورت ہے، جس میںعوامی آگہی (تاکہ ہر ضرورت مند تک اس کی رسائی ہو)، سخت نگرانی (تاکہ معاونت کا کوئی رُخ ضائع نہیں ہو)اور سنجیدہ رویے (تاکہ انصاف کی راہ میں رکاوٹیں نہیں کھڑی ہوں)، کیونکہ جب تک انصاف کا دروازہ *ہر کسی* کے لیے یکساں کھلا نہیں ہوتا، تب تک کوئی بھی معاشرہ "منصفانہ معاشرہ” کہلانے کا حق دار نہیں ٹھہرتا۔
عدالتی نظام پر بڑھتا ہوا بوجھ اور اس کے اعداد و شمار کی کہانی کا جائزہ لیںتو صرف ملتان کی ضلعی عدالتوں میں زیرِ سماعت مقدمات کی تعداد تشویشناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ جس میں19,524 مقدمات ایسے ہیں جن میں سزا کی مدت 7 سال تک ہے (مثلاً ڈکیتی، اقدامِ قتل، تشدد)۔ جوڈیشل پالیسی کےمطابق انہیں 6 ماہ میں نمٹایا جانا چاہیے۔ 2,945 مقدمات سنگین نوعیت کے ہیں (قتل، جنسی جرائم وغیرہ) جن میں عمر قید یا سزائے موت کا امکان ہوتا ہے۔ ان کا فیصلہ ایک سال میں ہونا ضروری ہے۔925 مقدمات منشیات سے متعلق ہیں، جنہیں ترجیحی بنیادوں پر نمٹانا ہوتا ہے۔
یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ عدالتیں وسائل اور وقت کی قلت کے باوجود انصاف کی فراہمی کی کوشش کر رہی ہیں، مگر مقدمات کا بڑھتا ہوا انبار اور تاخیر نظام کی کمزوریوں کو اجاگر کرتا ہے۔مقدمات کی بڑھتی ہوئی تعداد اور دستیاب وسائل میں کمی کے باعث بروقت فیصلے ایک چیلنج بنتے جا رہے ہیں۔ اس صورتحال میں ضروری ہے کہ عدالتی نظام کو درپیش عملی مسائل کو حل کیا جائے تاکہ سائلین کو جلد اور مؤثر انصاف مہیا ہو سکے۔
مصالحت انصاف کا وہ راستہ جو عدالتوں کا بوجھ کم کرسکتا ہے کیونکہ اگر ہر چھوٹا جھگڑا یا ذاتی رنجش عدالت تک نہیں پہنچے، تو شاید مقدمات کا یہ سیلاب رک سکے۔ فی الوقت ملتان کی عدالتوں میں 32 ہزار سے زائد مقدمات صرف معمولی تنازعات پر مشتمل ہیں۔ ایسے میں مصالحتی کمیٹیاں نہ صرف عدالتوں کے دباؤ کو کم کرسکتی ہیں، بلکہ معاشرتی رشتوں میں دراڑ آنے سے بھی بچاسکتی ہیں۔
کیونکہ انصاف کا مطلب صرف کورٹ رومز میں فیصلے سنانا نہیں، بلکہ معاشرتی ہم آہنگی، برداشت اور صلح کی ثقافت کو فروغ دینا بھی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم نظام کو مضبوط کریں، اپنی سوچ بدلیں، اور انصاف تک رسائی کو ہر شہری کا بنیادی حق سمجھیں۔
کسی نے خوب کہا ہے کہ "انصاف وہ دیا ہے جو ہر اندھیرے کو مٹا سکتا ہے— بشرطیکہ اس کی لو ہر گھر تک پہنچے۔”
ملتان سے تعلق رکھتے ہیں اور مڈکیرئیر صحافی ہونے کے ساتھ مختلف موضوعات پرلکھتے رہتے ہیں۔