ایمان عرفان
غیرت کے نام پر قتل ایک سماجی اور قانونی مسئلہ ہے جو پاکستان میں کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ یہ وہ عمل ہے جس میں خاندان کے افراد کسی مرد یا عورت کو اس بنا پر قتل کر دیتے ہیں کہ وہ خاندان کی عزت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ زیادہ تر ایسے واقعات شادی، طلاق، یا سماجی طور پر ناپسندیدہ رویے سے جڑے ہوتے ہیں۔
حال ہی میں،جنوبی پنجاب میں نوجوان ٹک ٹاکر خاتون کو ان کے گھر کی دہلیز پر کزن نے غیرت کے نام پر قتل کر دیاتو وہیںپشاور میںٹک ٹاکر میاںبیوی کو بھی ان کے کزن نےغیرت کےنام پر قتل کر دیا۔ پولیس کے مطابق، قاتلوں نے اچانک فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں مذکورہ افراد موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ قاتلوں، نے بار بار ان مقتول افر اد کو ٹک ٹاک بنانے سے روکا اور منع نہیںہونے پر اس طرحکا اقدام اٹھایا.
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق، سال 2021ء میں تقریباً 470 کیسز رپورٹ ہوئے، تاہم غیر سرکاری اندازوں کے مطابق یہ تعداد 1,000 سالانہ تک ہو سکتی ہے۔ زیادہ تر کیسز دیہی علاقوں میں رپورٹ نہیں کیے جاتے، جس سے اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ سال 2024ء میں ایک غیر سرکاری ادارے ایس ایس ڈی او کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 547 افراد نام نہاد غیرت کے نام پر قتل ہوئے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق جنوری سے نومبر 2024ء کے دوران 392 خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوئیں۔
غیرت کے نام پر قتل ہونے والوںکے پنجاب میں 168 کیسز رپورٹ ہوئے، سندھ میں 151 کیسز سامنے آئے، خیبرپختونخوا میں 52 واقعات رپورٹ ہوئے، بلوچستان میں 19 کیسز درج کیے گئےاور اسلام آباد میں 2 واقعات رپورٹ ہوئے۔
پاکستان میںسال 2016ء میں انسدادِ غیرت قتل بل منظور ہوا، جس کے تحت قاتل کو معافی نہیں دی جا سکتی،لیکن سماجی اور ثقافتی دباؤ کے باعث قانون پر مکمل عمل درآمد مشکل رہا ہے۔غیر مؤثر عدالتی کارروائی کے باعث کئی کیسز میں مجرم سزا سے بچ جاتے ہیں تو بعض خاندان قاتل سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں، جس کی وجہ سے انصاف نہیں ہو پاتااور کئی واقعات رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں۔
حقوق انسانی تنظیمیں اور سماجی کارکن سخت قوانین اور عوامی شعور اجاگر کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔تاہم یہ شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ غیرت کا مطلب عزت اور احترام ہونا چاہیے، ظلم کا نہیں، نیز میڈیا اور تعلیمی ادارے اس مسئلے پر روشنی ڈال کر مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں تو وہیں سماجی سطح پر مکالمے اور آگاہی کے ذریعے معاشرتی سوچ کو بدلا جا سکتا ہے۔
"غیرت عزت کا سبب ہونی چاہیے، ظلم کا نہیں۔ ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہوگی اور ہر زندگی کی قدر کرنی ہوگی۔”
یہ وقت ہے کہ ہم روایتی جبر کے خلاف کھڑے ہوں اور انصاف اور انسانیت کو ترجیح دیں۔ غیرت کے نام پر قتل کو جواز فراہم کرنے والی روایات کو ختم کرنا ناگزیر ہو چکا ہے تاکہ ہر فرد بغیر خوف کے جینے کا حق حاصل کر سکے۔