Untitled 2025 05 27T002650.817

خوف، خودمختاری اور عورت: پاکستانی معاشرے کا المیہ

فضاء مریم

ہمارے معاشرے میں ایک عجیب سا خوف رچا بسا ہے… خوف ایک ایسی عورت کا جو کسی کی محتاج نہیں، جو اپنے فیصلے خود کرتی ہے، جو زندگی اپنے اصولوں پر جیتی ہے۔ ہم اسے ’مضبوط اور خودمختار عورت‘ کہتے ہیں۔ مگر جیسے ہی یہ الفاظ زبان پر آتے ہیں، لوگوں کے چہروں پر ناگواری آ جاتی ہے، لہجے بدل جاتے ہیں، نظریں کڑوی ہو جاتی ہیں، اور رویوں میں تناؤ آ جاتا ہے۔

پاکستانی سماج، جو صدیوں پرانی روایات، دقیانوسی خیالات اور صنفی امتیاز پر مبنی اصولوں سے جُڑا ہوا ہے، وہاں ایسی عورت ایک "خطرہ” بن جاتی ہے۔ کیونکہ وہ عورت خاموش نہیں رہتی، وہ سوال کرتی ہے، وہ چپ چاپ سب کچھ سہنے کے بجائے بولنا جانتی ہے۔ وہ حق مانگتی ہے، حق چھیننا جانتی ہے، اور ظلم کے خلاف ڈٹ جانا جانتی ہے۔

ایسی عورت صرف خود کے لیے نہیں، بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک مشعلِ راہ ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے نظام کو ایسی مشعلوں سے خوف آتا ہے، کیونکہ وہ اندھیروں کو چیلنج کرتی ہیں۔ ایسے سماج میں جہاں عورت کا مثالی تصور "فرمانبردار، خاموش، اور قربانی دینے والی” سے جُڑا ہو، وہاں خودمختاری جرم بن جاتی ہے۔بقول پروین شاکر …
“تمھارے پاؤں کے نیچے کوئی زمین نہیں،
عجب مقام پر کھڑی ہو، یہ تمھارا کمال ہے”
Untitled 2025 05 27T002640.935
یہ بھی قابلِ غور حقیقت ہے کہ ایسی خواتین سے صرف مرد نہیں، بلکہ اکثر دوسری خواتین بھی خائف ہو جاتی ہیں۔ خاص طور پر وہ عورتیں جو خود پدرسری نظام کے نیچے دبی ہوتی ہیں، وہ ایک خودمختار عورت کو برداشت نہیں کر پاتیں۔ کیوں؟ کیونکہ اُس کی خود اعتمادی اور فیصلے اُن کے اندر کے خوف، عدم تحفظ اور معاشرتی غلامی کو آئینہ دکھاتے ہیں۔

ایسی عورت کو معاشرتی طور پر "اکھڑ”، "منہ زور”، "مغرور” یا "باغی” جیسے القابات دے دیے جاتے ہیں، صرف اس لیے کہ وہ جھکی نہیں، وہ خاموش نہیں رہی، وہ راضی برضا نہیں ہوئی۔

یہ ایک تلخ سچائی ہے کہ ہمارے ہاں ایک عورت کی کامیابی سے لوگ متاثر کم اور خوفزدہ زیادہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ عورت جو خود فیصلے کرے، جو اپنی شرائط پر زندگی گزارے، وہ روایتی ‘norms’ کو چیلنج کرتی ہے، اور یہی بات نظام کو ہضم نہیں ہوتی۔

قرآنِ پاک کی سورۃ التوبہ (آیت 71) میں ارشاد ہے:
"مومن مرد اور مومن عورتیں، ایک دوسرے کے مددگار ہیں، وہ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔”

اسلام عورت کو باعزت مقام دیتا ہے۔ حضرت خدیجہؓ ایک کامیاب تاجرہ تھیں، حضرت عائشہؓ علم، دانش اور حدیث کی امین تھیں، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے مشورے کو اہمیت دی۔ اسلام نے عورت کو تعلیم، کاروبار، جائیداد، نکاح، طلاق اور وراثت میں حق دیا — پھر ہم کون ہوتے ہیں اُس کی آواز دبانے والے؟

پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 25 واضح کرتا ہے: کہ "تمام شہری قانون کے سامنے برابر ہیں اور انہیں برابر کا تحفظ حاصل ہے۔” اور "ریاست عورتوں اور بچوں کے تحفظ کے لیے خصوصی اقدامات کرے گی۔”

یعنی نہ صرف مذہب بلکہ آئین بھی عورت کو برابری کا درجہ دیتا ہے۔ پھر خودمختاری جرم کیوں سمجھی جائے؟

اور بقول کشور ناہید کہ….
“ہم گناہ گار عورتیں ہیں
جو یقین رکھتی ہیں
کہ زندگی محبت سے جیت جاتی ہے”
Untitled 2025 05 27T002631.640
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی قوم نے ترقی کی، وہاں عورتیں محض تابعدار نہیں، فعال اور بااختیار شراکت دار تھیں۔
فاطمہ جناح، مادرِ ملت، جنہوں نے قیامِ پاکستان کے بعد نہ صرف سیاسی میدان میں قدم رکھا بلکہ آمریت کے خلاف آواز بلند کی۔
بیگم رانا لیاقت علی خان، جنہوں نے پاکستان میں خواتین کے حقوق، تعلیم، اور ملازمت کے لیے عملی اقدامات کیے۔
اور آج کے دور میں ملالہ یوسفزئی، جس نے تعلیم کی طاقت سے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

ان خواتین نے نہ صرف سماجی جبر کا سامنا کیا بلکہ تاریخ رقم کی۔ مگر کیا یہ سب آسان تھا؟ نہیں! انہیں بھی "منہ زور”، "مغرب زدہ” اور "خطرناک” کہا گیا، لیکن اُن کے حوصلے نے سب الزاموں کو شکست دی۔

وقت آ گیا ہے کہ ہم ان فرسودہ تصورات کو توڑیں۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک مضبوط عورت خطرہ نہیں، بلکہ طاقت ہے۔ وہ ایک چراغ ہے جو اندھیرے میں روشنی پھیلاتی ہے، ایک آئینہ ہے جو سچ دکھاتا ہے۔ ایسی عورت کو دباتے رہنا صرف اُس کی ذات کے ساتھ نہیں، بلکہ معاشرے کے مستقبل کے ساتھ بھی ناانصافی ہے۔

ایک خودمختار عورت صرف اپنا مقدر نہیں بدلتی، وہ پورے معاشرے کی سوچ، ساخت اور سمت کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

کیونکہ اگر عورت آزاد نہیں، تو معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا! بقول عمر بن علیم:
“عورت فقط اک جسم نہیں، احساس کی صورت ہوتی ہے
دل میں جو کچھ چھپ جائے، وہ راز کی صورت ہوتی ہے”

Untitled 80
فضا مریم ملتان سے تعلق رکھتی ہیں اور شعبہ صحافت سے منسلک ہیں، رپورٹر اور اینکر ہونے کے ساتھ مختلف موضوعات پر لکھتی ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں