اسلام آباد:وفاقی حکومت کی جانب سے جاری کردہ اقتصادی سروے 25-2024 کے مطابق تعلیم کے شعبے پر مجموعی قومی پیداوار (GDP) کا محض 0.8 فیصد خرچ کیا گیا۔ سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک میں شرح خواندگی 60.6 فیصد رہی۔
دستاویز کے مطابق مردوں کی شرح خواندگی 68 فیصد جبکہ خواتین کی شرح خواندگی 52.8 فیصد ریکارڈ کی گئی، یعنی مرد خواتین سے 16 فیصد زیادہ تعلیم یافتہ ہیں۔
اقتصادی سروے میں بتایا گیا ہے کہ ملک بھر میں اس وقت یونیورسٹیوں کی کل تعداد 269 ہے، جن میں سے 160 سرکاری اور 109 نجی یونیورسٹیاں ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کے تحت اعلیٰ تعلیم کے شعبے پر 61 ارب 10 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یونیورسٹی سطح پر پی ایچ ڈی فیکلٹی ممبرز کی شرح 37.97 فیصد ہے۔
حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے اقتصادی سروے 2024-25 کے مطابق تعلیمی شعبے میں بہتری کے مثبت اثرات سامنے آئے ہیں جس میں سکولوں میں داخلوں اور خواندگی کی شرح میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔
اقتصادی سروے کے مطابق پرائمری سکولوں میں بچوں کے داخلے کی شرح میں 3.2 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ 2023 میں پرائمری سکولوں میں طلبہ کی تعداد 2 کروڑ 38 لاکھ 61 ہزار تھی جو 2024 میں بڑھ کر 2 کروڑ 48 لاکھ 30 ہزار ہو گئی۔
اسی طرح مڈل سکولوں میں داخلے کی شرح میں 4.7 فیصد اضافہ دیکھا گیا جبکہ 2023 میں مڈل سکولوں میں طلبہ کی تعداد 94 لاکھ 30 ہزار تھی جو 2024 میں بڑھ کر 96 لاکھ 80 ہزار ہو گئی۔
ہائر ایجوکیشن کے شعبے میں بھی 3.8 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جس سے واضح ہوتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔
سکولوں کی مجموعی تعداد بھی بڑھی ہے اور 2023 میں ملک بھر میں سکولوں کی تعداد 42 لاکھ 20 ہزار تھی جو 2024 میں بڑھ کر 48 لاکھ 90 ہزار ہو گئی۔
شرح خواندگی کے حوالے سے سروے میں بتایا گیا ہے کہ 2023 میں دیہی علاقوں میں شرح خواندگی 51.56 فیصد جبکہ شہری علاقوں میں یہ شرح 74.9 فیصد رہی۔
دیہی علاقوں میں مردوں کی شرح خواندگی 61.2 فیصد، خواتین کی 41.62 فیصد اور خواجہ سراؤں کی 32 فیصد رہی۔شہری علاقوں میں خواجہ سراؤں کی شرح خواندگی 42.4 فیصد ریکارڈ کی گئی جبکہ مجموعی طور پر خواجہ سراؤں میں شرح خواندگی 40.15 فیصد رہی۔
پنجاب میں شرح خواندگی 66.25 فیصد رہی، مردوں میں شرح 71.98، خواتین میں 60.19 اور خواجہ سراؤں میں 41.3 فیصد رہی۔دیہی علاقوں میں مردوں کی شرح 65.9 اور خواتین کی 50.51 فیصد رہی۔
سندھ میں مجموعی شرح خواندگی 57.94 فیصد رہی، دیہی علاقوں میں شرح 38.14 اور شہری علاقوں میں 72.26 فیصد ریکارڈ کی گئی۔دیہی خواتین کی شرح خواندگی 27 فیصد اور مردوں کی 48.6 فیصد رہی جبکہ دیہی علاقوں میں خواجہ سراؤں کی شرح 27 فیصد اور شہری علاقوں میں 39.28 فیصد رہی۔
خیبرپختونخوا میںشرح خواندگی 51 فیصد ریکارڈ کی گئی، مردوں میں 62.55، خواتین میں 33.76 اور خواجہ سراؤں میں 39.26 فیصد شرح خواندگی رہی۔دیہی علاقوں میں مجموعی شرح خواندگی 48 فیصد اور شہری علاقوں میں 65.55 فیصد رہی۔
بلوچستان میںشرح خواندگی 42 فیصد رہی، مردوں میں 50، خواتین میں 32 اور خواجہ سراؤں میں 24 فیصد رہی۔دیہی علاقوں میں شرح 35.74 فیصد جبکہ شہری علاقوں میں 55.86 فیصد ریکارڈ کی گئی۔
قومی اقتصادی سروے 2024-25 کے مطابق پاکستان کے 23 فیصد سکولوں میں بجلی کی سہولت میسر نہیں۔
حکومت کی جانب سے جاری کردہ قومی اقتصادی سروے کے مطابق ملک کے 76 فیصد سکولوں میں پینے کا صاف پانی اور 78 فیصد تعلیمی اداروں میں ٹوائلٹ کی سہولت دستیاب ہے لیکن 22 فیصد اداروں میں ٹوائلٹس کی سہولت نہیں ہے۔
وفاق کے پرائمری سکولوں اور تعلیمی اداروں میں 100 فیصد بجلی اور پینے کا صاف پانی میسر ہے۔پنجاب میں 99 فیصد تعلیمی اداروں اور 98 فیصد پرائمری سکولوں میں بجلی کی سہولت موجود ہے جبکہ 100 فیصد اداروں میں پینے کا صاف پانی دستیاب ہے۔سندھ میں صرف 27 فیصد پرائمری سکولوں اور 31 فیصد تعلیمی اداروں میں بجلی کی سہولت ہے جبکہ 58 فیصد اداروں میں پینے کا صاف پانی میسر ہے۔خیبرپختونخوا (کے پی) میں 85 فیصد پرائمری سکولوں اور 86 فیصد تعلیمی اداروں میں بجلی جبکہ 89 فیصد میں صاف پانی موجود ہے۔بلوچستان میں 15 فیصد پرائمری سکولوں اور 21 فیصد تعلیمی اداروں میں بجلی جبکہ 29 فیصد میں صاف پانی میسر ہے۔
آزاد کشمیر میں 32 فیصد پرائمری سکولوں اور 43 فیصد اداروں میں بجلی جبکہ 37 فیصد میں صاف پانی موجود ہے۔گلگت بلتستان (جی بی) میں 59 فیصد پرائمری سکولوں اور 70 فیصد اداروں میں بجلی جبکہ 77 فیصد میں صاف پانی کی سہولت ہے۔
ٹوائلٹس کی دستیابی کے حوالے سے پنجاب کے 99 فیصد، سندھ کے 57 فیصد، کے پی کے 87 فیصد، جی بی کے 80 فیصد، آزاد کشمیر کے 54 فیصد اور وفاق کے 100 فیصد تعلیمی اداروں میں یہ سہولت موجود ہے۔