اکرام بکائنوی
انسان کی زندگی کااصل بگاڑ وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں وہ اپنے من کے بگاڑ کو معمولی سمجھ لیتا ہے۔ ظاہری جسم کا زخم دوا سے ٹھیک ہو جاتا ہے، مگر من کا زخم وقت سے بھی نہیں بھرتا جب تک انسان خود اس کے علاج کا ارادہ نہ کرے۔ آج کے دور کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم نے من کو سمجھنے کی کوشش ہی چھوڑ دی ہے۔ ہر شخص اپنے گردوپیش، نظام، معاشرے، سیاست، حالات اور دوسروں کی کمزوریوں پر تنقید کرتا ہے مگر کبھی یہ نہیں سوچتا کہ اس معاشرتی زوال کا سب سے پہلا مرکز ہمارا اپنا من ہے۔ جس من میں حسد، کینہ، خود غرضی اور دوغلاپن رچ بس جائے وہ من دوسروں کے لیے کیا، اپنے لیے بھی خیر کا سبب نہیں رہتا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ’’تنقید برائے اصلاح‘‘ کی ضرورت پیدا ہوتی ہے۔ من کی اصلاح کا پہلا قدم خود پر تنقید ہے، لیکن وہ تنقید جو مایوسی پیدا نہ کرے بلکہ اندر جھانکنے کا حوصلہ دے۔
ہماری اکثریت تنقید کو الزام سمجھتی ہے۔ اگر کوئی ہماری غلطی کی نشاندہی کرے تو فوراً دفاعی رویہ اختیار کر لیتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جو انسان خود پر تنقید برداشت نہیں کرتا وہ کبھی ترقی نہیں کرتا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’بے شک کامیاب وہ ہوا جس نے اپنے نفس کو پاک کیا اور ناکام وہ ہوا جس نے اسے آلودہ کیا۔‘‘ اس آیت میں من کی اصلاح کا بنیادی اصول موجود ہے۔ یعنی کامیابی اس کی ہے جو اپنے اندر کے نفس کو قابو میں رکھے، اسے پاکیزگی کی راہ پر چلائے، اور ناکامی اس کی ہے جو اپنے نفس کی خواہشات کا غلام بن جائے۔ اگر ہم اپنے من کا احتساب کرنا سیکھ جائیں تو باہر کی دنیا خود بخود سنورنے لگے گی۔
من کی خرابی کی کئی صورتیں ہیں۔ کبھی یہ حسد بن کر دل کو جلا دیتا ہے، کبھی غرور بن کر انسان کو اندھا کر دیتا ہے، کبھی خوف بن کر اس کے حوصلے ختم کر دیتا ہے، اور کبھی خود پسندی بن کر اسے دوسروں سے جدا کر دیتا ہے۔ سب سے خطرناک بیماری یہ ہے کہ انسان خود کو کامل سمجھنے لگے۔ جب من اپنی غلطیوں سے انکار کر دے تو اصلاح کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں انسان خود اپنی تباہی کا سبب بنتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے من پر تنقید کریں، مگر ایسی تنقید جو ہمیں توڑنے کے بجائے سنوار دے، ہمیں کمزور کے بجائے بیدار کرے۔
من کی اصلاح کے لیے سب سے پہلے سچائی کا سامنا ضروری ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ سچائی سے بھاگتے ہیں کیونکہ سچ ہمیں آئینہ دکھاتا ہے۔ جب انسان اپنے اندر کے جھوٹ، ریا، حسد، تکبر اور خودغرضی کو دیکھنے لگتا ہے تو وہ گھبرا جاتا ہے۔ مگر اصلاح اسی لمحے سے شروع ہوتی ہے جب انسان یہ تسلیم کر لے کہ ہاں، مجھ میں کمی ہے۔ یہ احساس گناہ نہیں بلکہ آغازِ اصلاح ہے۔ جو شخص اپنے اندر کے منفی پہلوؤں کو پہچان لیتا ہے، وہی ان سے نجات پاتا ہے۔من کو درست کرنے کے لیے دوسرا قدم نیت کی تطہیر ہے۔ نیت اگر درست ہو تو عمل خود بخود پاکیزہ ہو جاتا ہے۔ ہم اکثر اچھے کام کرتے ہیں مگر نیت میں ریا یا مفاد شامل ہوتا ہے، جس سے وہ عمل بے اثر ہو جاتا ہے۔ تنقید برائے اصلاح کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنی نیت پر بھی نگاہ رکھے۔ اگر نیت صرف اللہ کی رضا، خیر خواہی، اور انسانی بھلائی کے لیے ہو تو دل کا سکون خود بخود حاصل ہوتا ہے۔
تیسرا قدم من کی خاموشی ہے۔ آج کا انسان شور میں جی رہا ہے۔ موبائل، میڈیا، بحثیں اور دنیاوی دوڑ نے اسے اندر سے خالی کر دیا ہے۔ من کی اصلاح خاموشی کے بغیر ممکن نہیں۔ جب انسان کچھ لمحے تنہائی میں اپنے رب کے ساتھ گزارتا ہے تو دل کے غبار خود بخود چھٹنے لگتے ہیں۔ دل کے اندر موجود شور تھم جاتا ہے اور انسان اپنے وجود کی اصل حقیقت سے جڑنے لگتا ہے۔ یہی وہ لمحے ہیں جب انسان اپنے اندر کی روشنی کو محسوس کرتا ہے۔چوتھا قدم معافی ہے۔ دل میں کینہ رکھ کر کوئی دل صاف نہیں رہ سکتا۔ اکثر لوگ دوسروں کی غلطیوں کو پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں مگر اپنی غلطیوں کو بھول جاتے ہیں۔ اصل بہادری یہ نہیں کہ ہم دوسروں کو نیچا دکھائیں بلکہ یہ ہے کہ ہم ان کی غلطیوں کو درگزر کریں۔ معافی دل کو ہلکا کرتی ہے۔ اگر ہم نے کسی کو معاف کر دیا تو دراصل ہم نے خود کو آزاد کر لیا۔پانچواں قدم صحبتِ صالحہ ہے۔ من اسی ماحول سے رنگ پکڑتا ہے جس میں وہ رہتا ہے۔ اگر انسان نیک، مخلص، سادہ اور سچ بولنے والوں کی صحبت اختیار کرے تو اس کے اندر بھی نرمی اور صفائی پیدا ہوتی ہے۔ لیکن اگر وہ جھوٹ، منافقت ، یا منفی سوچ رکھنے والوں کے درمیان رہنے لگے تو دل آہستہ آہستہ سخت ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہا گیا ہے کہ انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے۔چھٹا قدم عملی اخلاق ہے۔ صرف سوچ بدلنے سے من درست نہیں ہوتا جب تک عمل نہ بدلے۔ سچ بولنا، وعدہ پورا کرنا، دوسروں کا حق دینا، کسی کے دکھ میں کام آنا، یہ سب وہ اعمال ہیں جو دل کو نرم رکھتے ہیں۔ جو شخص اپنے عمل سے خیر پھیلاتا ہے، اس کا من خود بخود روشنی سے بھر جاتا ہے۔
من کی اصلاح کا ایک اہم پہلو شکر گزاری ہے۔ جو دل شکر کرنا سیکھ جائے، وہ کبھی بیمار نہیں رہتا۔ ہم اکثر اس چیز کا غم کرتے ہیں جو ہمارے پاس نہیں، مگر جو نعمتیں ہمارے پاس ہیں ان کا احساس کھو دیتے ہیں۔ شکر انسان کو مثبت بناتا ہے۔ ایک شاکر دل میں حسد، مایوسی اور لالچ نہیں ٹھہرتے۔یہ سب باتیں کہنا آسان مگر عمل مشکل ہے کیونکہ من کی تربیت ایک دن کا کام نہیں، یہ عمر بھر کی محنت ہے۔ مگر جو انسان روزانہ اپنے دل کا جائزہ لیتا ہے، وہ آہستہ آہستہ بہتر ہونے لگتا ہے۔ یہی تنقید برائے اصلاح کا فلسفہ ہے کہ ہم خود پر نظر رکھیں، خود کو بہتر بنائیں اور پھر دوسروں کے لیے روشنی بنیں۔
من کی اصلاح کا سفر دراصل روح کی آزادی کا سفر ہے۔ جو شخص اپنے من پر قابو پا لیتا ہے وہ حالات، لوگوں یا دنیا کے اثرات سے آزاد ہو جاتا ہے۔ وہ اندر سے اتنا مضبوط ہو جاتا ہے کہ دنیا کی تلخیاں اسے نہیں توڑ سکتیں۔ مگر یہ آزادی اسی وقت ملتی ہے جب انسان خود کو بدلنے کا حوصلہ رکھے۔آج ہمیں اجتماعی طور پر بھی من کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ ہمارا معاشرہ غصے، حسد، ریاکاری اور دکھاوے سے بھرا ہوا ہے۔ ہم عبادت تو کرتے ہیں مگر دل میں نفرت رکھتے ہیں۔ ہم صدقہ دیتے ہیں مگر مشہوری کے لیے۔ ہم تنقید کرتے ہیں مگر دوسروں کو نیچا دکھانے کے لیے، اصلاح کے لیے نہیں۔ یہی سب رویے ہمارے اجتماعی من کو بیمار کر چکے ہیں۔ اگر ہم نے اس کی اصلاح نہ کی تو ظاہری ترقی بھی ہمیں سکون نہیں دے سکے گی۔
من کی اصلاح کی سب سے بڑی علامت انکساری ہے۔ جس کے دل میں عاجزی آ گئی، سمجھو اس کا من درست ہونے لگا۔ کیونکہ تکبر ہر خرابی کی جڑ ہے۔ جو شخص خود کو دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے وہ کبھی اپنی اصلاح نہیں کر سکتا۔ عاجزی انسان کو نرم، شکر گزار اور دردمند بناتی ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ من کی اصلاح صرف مذہبی یا روحانی فریضہ نہیں بلکہ انسانی ضرورت ہے۔ ایک پاکیزہ من والا انسان بہتر والد، بہتر دوست، بہتر رہنما اور بہتر شہری بن جاتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ معاشرہ بدلے تو سب سے پہلے اپنے دلوں کو صاف کرنا ہوگا۔ ہر فرد اگر اپنے من پر تنقید کر کے اسے درست کر لے تو معاشرے کی اصلاح خود بخود ممکن ہو جائے گی۔
من کی اصلاح کی کنجی یہ ہے کہ ہم روزانہ اپنے آپ سے یہ سوال کریں: آج میں نے کسی کو دکھ تو نہیں دیا؟ میں نے اپنی زبان سے کتنا خیر بولا؟ میں نے کسی کے لیے آسانی پیدا کی یا مشکل؟ میں نے اپنے رب کا شکر ادا کیا یا شکایت کی؟ اگر ہم روز یہ سوال کریں تو ہمارا من زندہ رہے گا۔ زندہ من ہی بیدار ضمیر پیدا کرتا ہے، اور بیدار ضمیر ہی قوموں کو سنوار دیتا ہے۔اصل تنقید وہی ہے جو ہمیں بہتر بنائے، اور اصل اصلاح وہی ہے جو من کو نرم کرے۔ من کی صفائی میں ہی ایمان کی تازگی ہے، من کی روشنی میں ہی کردار کی بلندی ہے، اور من کی اصلاح میں ہی انسانیت کی بقا ہے۔ یہی وہ تنقید برائے اصلاح ہے جس سے نہ صرف فرد بلکہ پورا معاشرہ نکھر سکتا ہے۔


