WhatsApp Image 2025 01 27 at 10.19.08

موسمیاتی تبدیلی اورخواتین:زمین سے جڑی زندگی کا غیر متناسب بوجھ

ڈاکٹر عبدالقدیر رانا

موسمیاتی تبدیلی اس وقت خوفناک حقیقت کا روپ دھار چکی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک اسے کچھ لوگوں کا وہم خیال کیا جاتا رہا لیکن اب دنیا بھر میں اس کے اثرات بڑی تیزی سے وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔ پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں صف اوّل میں شامل ہے اور اس کی آبادی کی ایک کثیر تعداد پہلے ہی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔ پچھلے چند سالوں میں آنے والی موسمیاتی تبدیلی نے پاکستان کے جنوبی پنجاب اور سندھ کی شہری اور بالخصوص دیہی آبادی کو بڑے پیمانے پر متاثر کیا ہے۔
WhatsApp Image 2025 01 27 at 10.25.28
اگر سب سے زیادہ متاثرہ فریق کی بات کی جا ےَ تو وہ خواتین ہی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کا خواتین پر اثر غیر متناسب اور گہرا ہے،خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں۔ایک رپورٹ کے مطابق، عالمی سطح پر 70فیصد غریب خواتین پر مشتمل ہیں،اور موسمیاتی تبدیلی کے باعث ان کی زندگی مزید مشکل ہو رہی ہے۔دیہی آبادی کی خواتین گھریلو کام کاج کے علاوہ کھیتی باڑی اور مال مویشی کی دیکھ بھال بھی کرتی ہیں۔غیر متوقع موسمی حالات جس کا مشاہدہ ہم پچھلے کچھ عرصہ سے کر رہے ہیں،جیسا کہ سال رواں میں ابھی تک 40فیصد تک کم بارشوں کا ہونا گندم کی فصل کو بری طرح متاثر کر سکتا ہے۔اسی طرح موسم سرما میں اچانک سے درجہ حرارت کا بڑھ جانا بھی ربیع کی فصلوں بشمول گندم کی پیداوار کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔سال 2022ءمیں آنے والی گرمی کی شدید لہر اور اس کے بعد سیلاب کی تباہ کاریوں میں جنوبی پنجاب اور سندھ میں کپاس کی فصل کی مکمل تباہی کا ہم حال ہی میں مشاہدہ کر چکے ہیں۔غیر یقینی موسمی حالات جس میں موسم سرما یا گرما کا معمول سے ہٹ کر طویل یا مختصر ہونا، کبھی خشک سالی اور کبھی بارشوں کے باعث سیلابی صورتحال کا جنم لینا، شدید گرمی کی لہر کا پیدا ہونا یہ سب وہ عوامل ہیں جو صدیوں سے چلتے فارمنگ سسٹم کو تباہ کر رہے ہیں.

تقریباً 43فیصدخواتین دنیا میں زرعی شعبے میں کام کرتی ہیں،اور موسمیاتی تبدیلی کے باعث فصلوں کی ناکامی،پانی کی کمی،اور زمین کے بنجر ہونے کی وجہ سے ان کی روزی روٹی متاثر ہو رہی ہے،اور وہ خواتین جو اپنے خاندانوں کی معاشی ذمہ داریاں بھی ادا کرتی ہیں وہ اس صورتحال سے انتہایَی پریشانی کا شکار ہیں کیوںکہ کسی بھی فصل کی مکمل یا جزوی تباہی ایک غیر یقینی صورتحال کو جنم دیتی ہے۔ دیہات میں بسنے والی خواتین کی زمہ داریوں میں پینے کا پانی بھر کر لانا اور آگ جلانے کے لیے لکڑیاں وغیرہ اکٹھی کرنا بھی شامل ہے جو کہ شدید موسمی حالات میں جوئےَ شیر لانے کے مترادف ہے۔WhatsApp Image 2025 01 27 at 10.21.50
ڈبلیو ایچ او کے مطابق، گرمی کی شدت اور قدرتی آفات (مثلاً سیلاب اور خشک سالی) خواتین کی صحت پر زیادہ اثر ڈالتی ہیں، خاص طور پر حاملہ خواتین کو غذائی قلت اور بیماریوں کا سامنا ہوتا ہے۔سیلاب یا دیگر قدرتی آفات کے بعد لڑکیوں کی تعلیم اکثر متاثر ہوتی ہے کیونکہ خاندانوں کو ان کے کام پر مجبور کیا جاتا ہے یا ان کی شادیاں کم عمری میں کر دی جاتی ہیں۔ یونیسف کے مطابق، پاکستان میں 2022ءکے سیلاب کے بعد لاکھوں بچیوں کی تعلیم رک گئی اور کم عمری کی شادیوں‌میں‌اضافہ بھی رپورٹ‌کیا گیا۔

خواتین جو کہ پہلے ہی جنسی امتیاز کا شکار ہیں ایسے میں کھیتوں میں کام کرتے ہوےَ شدید موسمی حالات کا سامنا کرنا، موسمیاتی تبدیلی کے باعث کیڑے مکوڑوں کی نئی اقسام کو مارنے کے لیے ادویات کےبے دریغ استعمال کے باوجود کھیتوں میں کام پر مجبور ہونا،فصلوں کی مکمل تباہی ان خواتین کو متبادل معاشی زرائع کی تلاش پر مجبور کرتی ہے،جبکہ یہ خواتین اپنی اور خاندان کی بھوک مٹانے کے لیے پہلے ہی سستی لیبر فورس کے طور پر کام کرتی نظر آتی ہے۔سال2022ءمیں آنے والے سیلاب نے بہت سارے خاندانوں کے مکانات اور فصلوں کو تباہ کردیا تھا اور ان کو پناہ گزیں کیمپوں میں رہنے پر مجبورہونا پڑا ۔ان کیمپوں میں سہولتوں کا فقدان جہاں بہت سارے امراض کا باعث بنتا ہے،وہیں جنسی استحصال جیسے خطرات بھی جنم لیتے ہیں۔اسی طرح جب مکانات اور فصلیں تباہ ہو چکے ہوں،دیگر وسائل اور آمدن بھی ختم ہو چکی ہوں،تو ایسے حالات کے تصور سے ہی انسان کی روح کانپ جانتی ہے اور یہ بہت سارے جسمانی،سماجی،معاشی اور زہنی مسائل کا باعث بنتا ہے لیکن یہ وہ حالات ہیں جن کا سامنا کرنا شاید اب ان خواتین کا مقدر بن چکا ہے۔

خواتین کو موسمیاتی پالیسیوں اور منصوبوں میں شامل کرنا اہم ہے تاکہ ان کے تجربات اور مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے مؤثر اقدامات کیے جا سکیں۔ تحقیق بتاتی ہے کہ جب خواتین کو قیادت میں شامل کیا جاتا ہے تو کمیونٹیز زیادہ مؤثر طریقے سے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹ سکتی ہیں۔یہ اعداد و شمار ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی صنفی انصاف کا بھی مسئلہ ہے اور اس کے لیے مشترکہ اور جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

WhatsApp Image 2025 01 27 at 06.54.44
ڈاکٹر عبدالقدیر رانا
ایسوسی ایٹ پروفیسر
شعبہ ایگریکلچرل سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی
بہاءالدین زکریا یونیورسٹی ملتان

اپنا تبصرہ لکھیں