Untitled 2025 06 27T000759.937

نشہ: ایک خاموش تباہی

صفورا امجد

دنیا بھر میں 26 جون کو انسداد منشیات کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد لوگوں کو منشیات کے اثرات کے حوالے سے آگاہ کرنا اور عالمی سطح پر آواز بلند کرنا ہے۔ نشہ صرف ایک انسان کو نہیں بلکہ پورے خاندان کو تباہ کردیتا ہے۔ منشیات کا استعمال ترقی پذیر ممالک میں ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی ہو رہا ہے. منشیات کے استعمال کی بنیادی وجہ غربت، بے روزگاری اور ذہنی دباؤ ہے۔ لوگ مشکلات سے راہ فرار حاصل کرنے کے لیے نشہ آور اشیاء کا استعمال شروع کر دیتے ہیں۔

نشہ کرنے والا شخص صرف خود نشے سے متاثر نہیں ہوتا بلکہ اس کے نتائج سارے خاندان کو بھگتنے پڑتے ہیں ۔ سکون کی تلاش میں ایک دفعہ تو نشےکی وادی میں گر گئے لیکن واپسی کی کوئی راہ نظر نہیں آتی۔ نہ صرف خود کے لیے بلکہ خاندان کے لیے بھی آزمائش بن جاتے ہیں ۔نشے کا آغاز عموماً یا تو کسی دوست کے ساتھ مل کر شغل لگانے سے ہوتا ہے یا پھر کسی پریشانی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے۔ زمہ داریوں اور آزمائش کا ڈٹ کر سامنا کرنے کے بجائے ایک ایسا راستہ چنا جاتا ہے جو وقتی سکون تو دے دیتا ہے لیکن زندگی بھر کا روگ بن جاتا ہے۔ نہ تو کام کرنے کا جی چاہتا ہے اور نہ کامیابی کی لگن باقی رہتی ہے۔ باقی رہ جاتی ہے تو صرف یہ کوشش کہ کسی طرح نشے کی ڈوز مل جائے .

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق نائیجیریا دنیا کا وہ ملک ہے جہاں سب سے زیادہ لوگ منشیات کا استعمال کرتے ہیں جہاں 14.3 فیصد بالغ آبادی کسی نہ کسی قسم کا نشہ استعمال کرتی ہے۔ دوسرا نمبر آسٹریلیا کا ہے جہاں آئس کا استعمال بڑھ رہا ہے ۔تیسرا نمبر ایران کا ہے جہاں افیون اور ہیروئن کا استعمال عام ہے۔

اقوام متحدہ اور وزارت انسداد منشیات کی مشترکہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریبا 6 فیصد بالغ آبادی مختلف اقسام کا نشہ استعمال کرتی ہے۔ جس میں عام طور پر چرس، ہیروئن، آئس اور انجیکشن کے ذریعے نشے کا استعمال شامل ہے۔نشہ آور چیزوں میں عموماً چرس اور بھنگ کا استعمال زیادہ ہے۔ہیروئن کا استعمال بھی کئی علاقوں میں زیادہ ہے، یہ پاؤڈر کی شکل میں ہوتی ہے اور سانس یا انجیکشن کے ذریعے جسم میں داخل کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ افیون، اور کوکین جیسے نشے بھی تیری سے پھیل رہے ہیں۔1997 کا نارکوٹکس کنٹرول ایکٹ پاکستان کا پرنسپل ڈرگ قانون ہے۔ یہ ایکٹ طبی اور سائنسی مقاصد کے علاوہ کسی بھی نشہ آور دوائی یا سائیکو ٹراپک مادے کی کاشت، پیداوار، تیاری، فروخت، خرید، نقل و حمل ، ذخیرہ کرنے اور استعمال پر پابندی لگاتا ہے۔

پاکستان میں طلبہ کے درمیان منشیات کا استعمال ایک تشویشناک صورتحال اختیار کرتا جارہا ہے۔ ذہنی دباؤ، خاندانی مسائل اور امتحانی دباؤ کی وجہ سے طلبہ منشیات کا استعمال کرتے ہیں۔یونیورسٹی اور کالج میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا نشہ چرس اور آئس کی صورت میں ہوتا ہے۔ یہ طلبہ کو وقتی سکون تو فراہم کر دیتا ہے لیکن طلبہ اس لت کی وجہ سے تعلیم ، صحت اور مستقبل سب کھو دیتے ہیں ۔ مختلف تعلیمی اداروں میں منشیات سے بچاؤ کے لیے آگاہی مہم کا آغاز بھی کیا جارہا ہے۔

منشیات کا بڑھتا ہوا استعمال اب صرف انفرادی مسئلہ نہیں رہا بلکہ ایک اجتماعی چیلنج بن چکا ہے ۔ اس مسئلے کا حل سزا یا قانون سازی نہیں ہے بلکہ نشے کے سنگین اثرات کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کرنا ہے ۔ والدین ، میڈیا اور حکومت کو ایسے اقدامات اٹھانے ہوں گے جس سے نوجوان نسل نشے سے دور رہیں اور اپنے مستقبل کو سنوارنے کی کوشش کریں۔

Untitled 2025 05 11T003709.473
صفورا امجد، ویمن یونیورسٹی ملتان کے شعبہ ابلاغ عامہ کے آٹھویں سمسٹر کی طالبہ ہیں۔ میڈیا، مواصلات اور سماجی مسائل کے بارے میں پرجوش ہونے کے ساتھ، وہ کہانی سنانے اور صحافت کے ذریعے بیداری اور تبدیلی لانے کے لیے اپنی آواز کا استعمال کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں