طارق قریشی
سیلاب ازل سے کرہ ارض پر آ رہے ہیں اور شاید ابد تک آتے رہیں گے، تاہم حالیہ موسمی تبدیلیاں دنیا بھر میں خوفناک بارشوں کے خطرات کو بڑھا رہی ہیں۔اسی لئے سیلاب اور سیلابی تباہ کاریوں کے نتائج بھی اب زیادہ سامنے آنے لگے ہیں۔
سیلاب سے ہر سال عالمی سطح پر اربوں ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ سال 1990 ءسے سال 2022ء تک سیلاب نے دنیا بھر کو 1.3 ٹریلین ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان پہنچایا ہے۔ صرف پچھلے پانچ سالوں میں سیلاب سے دنیا کو مجموعی طور پر 320 بلین ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔ 1990ء سے 2022ء تک سیلاب سے دو لاکھ اٹھارہ ہزار 353 افراد موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔خود پاکستان نے بھی 2022 ءمیں ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب کو بھگتا ہے۔گزشہ سیلاب میں 1,739 افراد ہلاک ہوئے جن میں 647 بچے بھی شامل تھے۔ اس دوران بارہ ہزار 867 افراد زخمی ہوئے۔ وزارت خزانہ نے نقصان کا مجموعی تخمینہ 14.9 بلین امریکی ڈالر لگایا۔سیلاب سے ہاؤسنگ سیکٹر کو 5.6 بلین ڈالر، زراعت، خوراک، مویشی اور ماہی گیری سیکٹر میں 3.7 بلین ڈالر، نقل و حمل اور مواصلات میں 3.3 بلین ڈالر کا نقصان ہوا۔ 2.3 ملین سے زیادہ گھر تباہ ہوئے۔ 1.7 ملین ہیکٹر رقبہ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں۔ آٹھ لاکھ سے زیادہ مویشی ہلاک ہوئے۔ تیس ہزار سے زیادہ اسکولوں اور دو ہزار سے زائد صحت کی سہولیات کو نقصان پہنچا۔ تقریباً 150 پل اور ساڑھے تین ہزار کلومیٹر طویل سڑکیں تباہ ہو گئیں۔
جنوری کے ابتدائی ایام میں سعودی عرب کے مقدس شہروں مکہ، مدینہ اور جدہ میں طوفانی بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب کو دیکھ کر میرے ذہن میں دنیا اور پاکستان کے سیلابی نقصانات اور ممکنہ حل کا جو خیال بصورت "خواب” ذہن میں آیا،اسے اب صاحبان بصیرت و اقتدار، حکومت پاکستان، حکومت سندھ، حکومت پنجاب اور دنیا بھر کی حکومتوں کیلئے صفحہ قرطاس کی نذر کر رہا ہوں۔سیلابی نقصانات سے بچنے، پانی کے ذخائر کے ضیاع کو کم کرنے اور سیلابی پانی سے ملکی معیشت میں انقلابی تبدیلی لانے کیلئے میری تجویز یہ ہے کہ ڈیمز کی متنازعہ تعمیر میں پڑے بغیر سیلابی راستوں اور ملحقہ شہروں میں نکاسی آب کیلئے زیر زمین آبی سرنگوں کا جال بچھایا جائے یا پانی کے بہاؤ کا رخ موڑا جائے اور سیلابی پانی کو ان سرنگوں یا نئے آبی راستوں کے ذریعے پاکستانی صحراؤں خاص طور پر تھر اور چولستان تک پہنچایا جائے۔جہاں پانی خود ہی کچھ عرصہ بعد خشک و بے آباد صحرائی زمینوں کو سیلابی مٹی بچھا کر قابل کاشت اور سرسبز بنادے گا۔اسی فارمولے پر شہروں کے سیوریج کے پانی کو شہروں سے باہر لیجاکر اور اس کی فلٹریشن کرکے مزید قابل استعمال پانی حاصل کیا جائے۔حاصل کردہ گاربیج کو زراعت کیلئے بطور کھاد استعمال کیا جائے۔جب صحرائی فصل حاصل ہونے لگے تو اس کی متعلقہ انڈسٹریز اسی خطے میں قائم کرکے نیا معاشی انقلاب برپا کیا جائے۔ایسا کرنے سے صحرائی خطوں میں زراعت، لائیو سٹاک، ماہی پروری، کھاد، شوگر، فلور، اور تعمیراتی شعبوں سمیت دیگر شعبہ حیات میں نت نئے ذرائع آمدن پیدا ہونگے۔بےروزگاری کے عفریت پر قابو پایا جاسکے گا۔اسی فارمولے پر چلتے ہوئے ٹھٹھہ سمیت دیگر ساحلی شہروں کے سمندر برد ہونے کی رفتار کو کم کیا جاسکے گا۔ واضح رہے کہ پاکستان میں صحراؤں کا کل رقبہ تقریباً گیارہ ملین ہیکٹر ہے جو کہ ملک کے کل رقبے کا تقریباً 13.82 فیصد رقبہ بنتا ہے۔یہ سوچ کر ہی ذہن میں خوشگوار جھرجھری آجاتی ہے کہ ملک کو کو اگر مزید گیارہ ملین ہیکٹر رقبہ کاشت کاری اور دیگر انڈسٹریز کیلئے میسر آجائے تو آنے والے وقت میں میرا پاک وطن قرضوں سے آزاد ہو کر کس معاشی بام عروج پر کھڑا ہوگا۔ آخری جملہ یہ کہ میں سائنسدان یا انجینئر نہیں ہوں۔ پاکستان کی خود کفالت کے اس انقابی آبی تصور کی مزید نوک پلک ماہرین کی مدد سے سنواری جاسکتی ہے۔ بہرحال میرا کام تھا اس خواب کو طشت از بام کرنا وہ میں نے کردیا اب باقی "جو مزاج یار میں آئے”.