WhatsApp Image 2025 03 21 at 12.56.13

خوردنی تیل کا 5 ارب امپورٹ بل، انڈونیشیا کے تعاون سے سندھ میں‌آئل پام کی کاشت شروع

حیدرآباد: ملکی زرعی ماہرین اور انڈونیشیا کے سفارتکاروں نے کہا ہے کہ پاکستان میں کھانوں میں تیل کا استعمال زیادہ ہوتا ہے، بڑھتی ہوئی آبادی اور پانی کے مسائل کی وجہ سے ملک میں خوردنی تیل کا 92 فیصد دوسرے ممالک سے امپورٹ کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے پٹرول کے بعددوسرے نمبر پر خوردنی تیل کا امپورٹ بل ہے،لہٰذا ملک میں کم سے کم 60 ہزار ایکڑ پر آئل پام کی کاشت کو یقینی بنایا جائے، جس میں 30 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے.

سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام میں انڈونیشین ماہرین کی جانب سے آئل پام کی کاشت پر مشترکہ تحقیق پر اتفاق کیا گیا ہے.

انڈونیشیا کے قونصل جنرل کراچی کی زیرقیادت ماہرین کا ایک اعلیٰ سطحی وفد ایکٹنگ قونصل جنرل مسٹر تگوہ ویویکو اور ڈاکٹر احمد سیوفیان، قونصل برائے اقتصادی امور کی قیادت میں سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام کا دورہ کیا اور یونیورسٹی کے لطیف فارم پر جاری یونیورسٹی اورڈالڈا آئل پام پائلٹ پروجیکٹ کی پیشرفت کا جائزہ لیا اور ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں شرکت کی.

اجلاس کی صدارت وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر الطاف علی سیال نے کی، وفد میں اقتصادی امور کی ٹیم کے دیگر ارکان، دیوانتو پریوکوسومو، اَدی پراناجایا، رینالڈی پترا اور مسز برکھا سلمان بھی شامل تھے۔

اس موقع پر بتایا گیا کہ سندھ سمیت پاکستان کا کوسٹل ایریا آئل پام کیلئے موزوں ہے، لیکن اس کی بیابانی علاقوں میں کاشت کیلئے سندھ زرعی یونیورسٹی، ملائیشیا سمیت، دنیا کے مختلف ممالک کی آئل پام کی اجناس پر تحقیق کر رہا ہے، اور سندھ زرعی یونیورسٹی کے لطیف تجرباتی فارمز سمیت کراچی کے قریب کاٹھوڑ میں مختلف اداروں کے ساتھ تحقیقی کام میں مصروف ہے.

اجلاس میں‌کہا گیا کہ پاکستان ہر سال 4 سے 5 ارب ڈالر خوردنی تیل کی درآمد پر خرچ کرتا ہے ،اور ملک میں مقامی آئل پام کی کاشت کو فروغ دے کر اس مالی بوجھ کو کم کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے انڈونیشیا، جو کہ عالمی سطح پر پام آئل پیدا کرنے والا ایک بڑا ملک ہے، کے ساتھ مضبوط تعاون کی ضرورت پر زور دیا تاکہ جدید تکنیک اپنا کر مقامی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکے۔

انڈونیشیا کےقونصل برائے اقتصادی امور ڈاکٹر احمد سیوفیان نے کہا کہ انڈونیشیا پاکستان میں آئل پام کے شعبے کو فروغ دینے کے لیے تحقیقی اشتراک، طلبہ کے لیے سکالرشپس، تبادلہ پروگرامز، اور تکنیکی مہارت کی فراہمی کے لیے پرعزم ہے۔ جبکہ سندھ زرعی یونیورسٹی کے ساتھ آئل پام شعبے میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی، کمرشل نرسریوں کے قیام، پائلٹ ایکسٹریکشن یونٹس، اور انڈسٹری سے روابط بڑھا کر انڈونیشین سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے امکانات موجود ہیں.

اس موقع پر انہوں نےپاکستان کی کاؤنسل آف پام آئل پروڈیوسنگ کنٹریز (سی پی او پی سی) میں رکنیت کی پیشکش کی ، جس سے پاکستان کے دنیا آئل پام پیدا کرنے والے ممالک سے روابط میں مدد ملے گی،اور پائیدار پام آئل کی پیداوار، بین الاقوامی مارکیٹ میں اس کے مفادات کا تحفظ، اور پام آئل سے متعلق پالیسیوں میں ہم آہنگی پیدا ہو گی.

سندھ زرعی یونیورسٹی کے آئل پام تحقیق و ترقی کے مرکزی محقق اور فوکل پرسن ڈاکٹر اللہ ودھایو گانداہی نے اپنی پریزنٹیشن کے دوران سندھ زرعی یونیورسٹی کی آئل پام تحقیق میں کردار اور سندھ کے ساحلی علاقوں میں بڑے پیمانے پر آئل پام کی تجارتی کاشت کے امکانات کو اجاگر کیا، تاکہ پاکستان کی خوردنی تیل کی درآمد پر انحصار کم کیا جا سکے۔

ڈائریکٹر یونیورسٹی ایڈوانسمنٹ اینڈ فنانشل اسسٹنس ڈاکٹرمحمد اسماعیل کمبھر،نے یونیورسٹی کی تعلیمی اور تحقیقی خدمات پر بریفنگ دی، خاص طور پر زرعی جدت اور پائیداری کے فروغ میں یونیورسٹی کے کردار کو اجاگر کیا.

اس موقع پر وفد نے ڈالڈا آئل پام تجرباتی فیلڈ کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے آئل پام کے صحت مند پودوں کا مشاہدہ کیا اور پاکستان میں وسیع پیمانے پر پام آئل کی کاشت کے فروغ میں دلچسپی کا اظہار کیا۔اس موقع پر کراپ پراڈکشن فیکلٹی کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر عنایت اللہ راجپر، چیئرمین ہائی پاور فارم مینجمنٹ کمیٹی پروفیسر ڈاکٹر ظہور احمدسومرو، ڈائریکٹر بزنس انکیوبیشن سینٹرڈاکٹر محمد سلیم سرکی، ڈاکٹر فرمان علی چانڈیو، ڈاکٹر صائمہ کلثوم ببر اور ڈالڈا فوڈز کے وریندر کمار بھی موجود تھے۔

اپنا تبصرہ لکھیں