ایس پیزادہ
یہ صرف کیلنڈر کا ایک سال نہیں بلکہ عورتوں پر ظلم کی ایک طویل فہرست کا تازہ باب ہے۔ اس سال نے ہمیں پھر سے وہ تلخ سوالات یاد دلا دیئے ہیں، جو ہم برسوں سے نظر انداز کرتے آئے ہیں، یہ وہ چیخیں ہیں جو سنائی تو دیتی ہیں مگر ہم نے انہیں سننے سے انکار کر رکھا ہے، وہ خاموش چیخیں جو دیواروں سے ٹکرا کر لوٹ آئیں کیونکہ معاشرے کے کان بند تھے اور ضمیر سویا ہوا تھا.
ہم بات کرتے ہیں ان ناموں کی جو اب محض یاد یں ہیں مگر ان کا درد موجود ہے.
اسلام آباد کی جدید روشنیوں میں ایک معصوم چہرے کی روشنی ہمیشہ کے لیے بجھ گئی، ثناء یوسف ایک باہمت باعلم بیٹی ایک خواب دیکھنے والی ایک مقصد رکھنے والی بچی جو محض پڑھنا چاہتی تھی، ڈاکٹر بننا چاہتی تھی اور اس معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہتی تھی، لیکن اس کی معصوم خواہش اس کی امید اور اس کا وجود سب کچھ سفاکی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا.یہ صرف ثنا کا قتل نہیں یہ ایک سوچ کا قتل ہے یہ عورت کے حقِ زندگی پر حملہ ہے یہ ہوا کی بیٹی کے پروں کو نوچنے کی ایک اور کوشش ہے!!!
ہمارے معاشرے کی بدترین حقیقت یہ ہے کہ عورت کہیں بھی محفوظ نہیں،
نہ گھر کی چار دیواری میں نہ تعلیمی اداروں میں نہ سڑکوں پر اور نہ دفاتر میں،
دفاتر میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے وہ اکثر زبان پر نہیں لایا جا سکتا ہر مسکراہٹ کو دعوت سمجھا جاتا ہے ہر انکار کو گستاخی اور ہر خاموشی کو رضامندی عورت اگر عزت سے روزی کمانا چاہے تو کردار پر سوال اٹھا دیے جاتے ہیں اگر وہ اپنی عزت بچانے کی کوشش کرے تو اسے بدتمیز انا پرست یا کام نہ آنے والی کہہ دیا جاتا ہے اکثر دفاتر میں عورت کو محض خوبصورتی کا سامان سمجھا جاتا ہے جسے تنخواہ نہیں خاموشی کا معاوضہ دیا جاتا ہے.
باہر نکلنے والی خواتین روزانہ نہ صرف سڑکوں کی دھول اور دھکے برداشت کرتی ہیں بلکہ نظریں جملے تعاقب اور کبھی کبھی جسمانی تشدد تک کا سامنا کرتی ہیں وہ جو اپنے گھر کی دیواروں سے نکل کر خوابوں کا پیچھا کرتی ہیں جو اپنے بچوں کی کفالت کرنے نکلتی ہیں اپنے گھر کا سہارا بنتی ہیں انہیں ہر موڑ پر مردانہ انا حسد خوف یا ہوس روکنے کی کوشش کرتا ہے.
سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ جب عورت کو نقصان پہنچایا جاتا ہے تو وہ مرد اپنے گناہ چھپانے کے لیے عورت کے کردار پر حملہ کرتا ہے، عورت کو بدنام کر کے اسے خاموش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، یہ ویسی ہی تھی کچھ نہ کچھ تو ہوگا اکیلی کیوں نکلی تھی؟ ٹک ٹاک کرتی تھی یہ جملے قاتل سے پہلے سماج قتل کرتا ہے…
کیا عزت کا معیار اب یہ رہ گیا ہے کہ عورت نظر نہ آئے بولے نہ ہنسے نہ ترقی نہ کرے؟
ثناء یوسف کا قتل صرف اس کی جان نہیں اس کے خوابوں محنت صلاحیت اور حقِ زندگی کا قتل تھا یہ ان تمام بچیوں کے مستقبل پر سوال ہے جو آگے بڑھنا چاہتی ہیں جو کچھ بننا چاہتی ہیں جو صرف زندہ رہنا چاہتی ہیں…
اور ہم؟ ہم چند دن افسوس کر کے کچھ سوشل میڈیا پوسٹس ڈال کر پھر خاموش ہو جاتے ہیں
نہ مجرم پکڑا جاتا ہےنا قانون حرکت میں آتا ہے نہ ضمیر
ہم کب سمجھیں گے کہ عورت معاشرے کی زینت نہیں معاشرے کی بنیاد ہے؟
ہم کب مانیں گے کہ عورت کو عزت احسان کے طور پر نہیں حق کے طور پر چاہیے؟
ثنا یوسف اب اس دنیا میں نہیں مگر اس کی خاموش چیخیں اب بھی فضا میں گونج رہی ہیں
وہ ہمیں جگا رہی ہیں جھنجھوڑ رہی ہیں
وہ ہم سے کہہ رہی ہیں کہ
مجھے بچا نہیں سکے تو کم از کم میرے بعد کسی بیٹی کو بچا لینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیما گل فروری 2025ء میں پشاور کے ایک فلیٹ میں پرسرار حالات میں مردہ پائی گئی وہ ایک باشعور خودمختار عورت تھی جو زندگی کو اپنی شرائط پر جینا چاہتی تھی مگر یہ سماج ایسی عورتوں کو کیسے برداشت کرتا؟ سیما کی موت ایک حادثہ قرار دے دی گئی لیکن سچ اب بھی کہیں سوال بن کر زندہ ہے.
اقراءنورپور تھل خوشاب کی وہ بیٹی جسے غیرت کے نام پر 27 مئی 2025ء کو قتل کر دیا گیا وہ اپنی تعلیم مکمل کر رہی تھی، اپنے خواب دیکھ رہی تھی، مگر اس کی سوچ اس کی خودداری خاندان کے لیے ناقابلِ قبول تھی اقراء کی زندگی کی قیمت صرف اتنی تھی کہ اس نے اپنی مرضی سے جینے کی خواہش کی….
جنت کوکو پشاور کی ایک باہمت ٹک ٹاکر جس نے ہزاروں لڑکیوں کو اپنی آواز اور اعتماد سے متاثر کیا مگررواں برس 25 اپریل کو اس کی زندگی کا چراغ بجھا دیا گیا، وہ صرف اپنی پہچان بنانا چاہتی تھی، اپنے فن کا اظہار کرنا چاہتی تھی، مگر اس کی آواز اس کی آزادی کچھ لوگوں کے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔ اسے مار کر یہ کہا گیا کہ خودکشی کی لیکن فرانزک رپورٹ نے سچ کی دہلیز پر دستک دے دی.
آنسہ ساجد، ایک نوجوان لڑکی جو اپنی سوشل میڈیا سرگرمیوں کے ذریعے خود کو منوانا چاہتی تھی اس کی ہنسی اس کی خود اعتمادی اس کے قریبی رشتے داروں کو کھٹکنے لگی گولی مار دی گئی اور معاملے کو خودکشی کا رنگ دے کر دبا دیا گیا مگر جب فرانزک رپورٹ سامنے آئی تو خاموشی کے پردے چاک ہو گئے.
یہ صرف چند نام نہیں یہ وہ لڑکیاں ہیں جن کے خواب چھین لیے گئے۔ یہ وہ عورتیں ہیں جو جینا چاہتی تھیں اپنی شناخت بنانا چاہتی تھیں مگر ان کے ارمان خون میں لت پت کر دیئے گئے…
ہم کب تک غیرت، روایت اور خاندانی عزت کے نام پر عورتوں کی لاشیں اٹھاتے رہیں گے؟
کیا عورت ہونا جرم ہے؟
کیا اپنی رائے رکھنا اپنی راہ چننا اور اپنی زندگی جینا صرف مردوں کا حق ہے؟
کیا کسی لڑکی کا خواب دیکھنا واقعی اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کی سزا موت ہے؟
ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں خاموشی کو تحفظ کہا جاتا ہے اور چیخ کو بغاوت جہاں عورت کا ہنسنا بولنا سیکھنا سکھانا سب کچھ شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے…
ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم کب تک ایسی روایات کی آڑ میں اپنی بیٹیوں بہنوں اور دوستوں کی قبریں کھودتے رہیں گے…
وقت آ گیا ہے کہ ہم سوال کریں…
ان کے لیے کون کھڑا ہوگا؟
کون انصاف کے لیے آواز بلند کرے گا؟
کیا ہمارے قانون میں اتنی سکت ہے کہ وہ ان مظلوم روحوں کو سکون دے؟
کیا ہمارا ضمیر جاگے گا؟
یا اگلے سال بھی ہم ایک نئی فہرست لکھ رہے ہوں گے نئی چیخیں نئی قبریں؟
ہم خاموش نہیں رہ سکتے
اب بولنے کا وقت ہے لکھنے کا وقت ہے اور انصاف کا مطالبہ کرنے کا وقت ہے
یہ چیخیں گونگی نہیں یہ تاریخ کا نوحہ ہیں اور ہم سب گواہ ہیں
عورت ہونا سزا نہیں یہ ایک مکمل زندگی کا حق ہے!!!
سماجی کارکن ہیں اور مختلف موضوعات پر لکھتی رہتی ہیں۔