Untitled 2025 10 29T074143.529

ڈیجیٹل دھوکے کا دور؛ پاکستان میں‌غلط معلومات کی جنگ اور سچ کی تلاش

پاکستان میں سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر غلط اور گمراہ کن معلومات (misinformation) کے پھیلاؤ نے نہ صرف عوامی شعور کو متاثر کیا ہے بلکہ جمہوری عمل، سماجی ہم آہنگی اور قومی سلامتی کے لیے بھی ایک سنگین خطرے کی شکل اختیار کر لی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں تقریباً 78.4 فیصد افراد نے مستقل بنیادوں پر جعلی خبروں کا سامنا کیا ہے، مگر صرف 39.5 فیصد افراد انھیں درست شناخت کر پائے ہیں۔
اسی طرح، ایک مطالعے نے یہ انکشاف کیا ہے کہ تقریباً 63 فیصد یونیورسٹی طلبا روزانہ آن لائن رنگ بدلتی معلومات کا سامنا کرتے ہیں، اور 81 فیصد نوجوان سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا وہ پلیٹ فارم ہے جہاں سب سے زیادہ ہدفی جعلی معلومات پھیلتی ہیں۔
Untitled 2025 10 29T074953.352
پاکستان میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا صارفین کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ مارچ 2024 تک اندازاً 65 فیصد پاکستانی سوشل میڈیا استعمال کر رہے تھے، جس سے عوامی رائے سازی میں ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کا کردار نمایاں ہو گیا ہے۔یہ تمام حقائق اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ معلوماتی منظرنامے میں اب ڈیجیٹل خواندگی کی کمی، وسائل کی عدم دستیابی، اور تصدیق کے نظام کی کمزوری بنیادی چیلنجز ہیں۔ ایک مطالعے نے بتایا ہے کہ پاکستان میں جعلی اور گمراہ کن معلومات خاص طور پر معاشی، سیاسی اور صحت کے شعبوں میں زیادہ پھیل رہی ہیں۔

عالمی سطح پر بھی یہی رجحان دیکھا جا رہا ہے۔ تحقیق نے یہ اجاگر کیا ہے کہ تقریباً پانچ میں سے دو افراد ہفتے میں کم از کم ایک بار غلط معلومات کا سامنا کرتے ہیں، اور صرف تین میں سے ایک ہی فرد معتمد انداز سے معلومات کی صداقت جان پاتا ہے۔ یہ عالمی مظاہر پاکستان کے حوالے سے بھی موزوں ہیں، جہاں سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی جھوٹی خبریں، ویڈیوز، اور تصاویر عوامی ذہن کو متاثر کرتی ہیں، اور بعض اوقات سیاسی یا سماجی تنازعات کو ہوا دینے کا ذریعہ بنتی ہیں۔
Untitled 2025 10 29T075118.581
ایک مطالعے کے مطابق لاہور کے نوجوانوں میں، 2021 میں 71.7 ملین ڈیجیٹل میڈیا صارفین تھے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 9 ملین زائد تھے۔صحت کے موضوعات پر مبنی تحقیق نے بتایا ہے کہ پاکستان میں طبی معلومات میں غلط فہمیاں آسانی سے پھیلتی ہیں، جس کے نتیجے میں مریضوں کی تعداد اور صحت کی پیچیدگیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ جعلی معلومات کی بنیاد پر پھیلنے والے تنازعات اور عدم اعتماد معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ایک مطالعہ نے پاکستان میں جعلی اطلاعات کے باعث معاشرتی تقسیم اور عوامی اعتماد کی کمی کا ذکر کیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مِیس اِنفارمیشن اور ڈس اِنفارمیشن کے تدارک کے لیے مختلف اقدامات ضروری ہیں، جن میں ڈیجیٹل خواندگی اور معلومات کی تصدیق کی تربیت سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لازمی شامل کی جائے تاکہ نوجوان صارفین جعلی مواد کو پہچان سکیں۔فیکٹ چیکنگ پلیٹ فارمز اور مقامی میڈیا کا تعاون بڑھایا جائے تاکہ شائع شدہ مواد کی تصدیق جلد اور مؤثر ہو سکے۔قانون سازی اور پالیسی اصلاحات متعارف کروائی جائیں، جن میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذمہ داریاں، جعلی معلومات کے مرتکب افراد کی ذمہ داری، اور شفاف رپورٹنگ کا نظام شامل ہو۔عالمی تعاون اور ٹیکنالوجیکل مداخلت جیسے مصنوعی ذہانت (AI) پر مبنی شناختی ٹولز کو استعمال کیا جائے تاکہ جعلی تصاویر، ویڈیوز اور ٹیکسٹ کا فوری پتا لگایا جا سکے۔پبلک مہمات اور شعور بیداری پروگرامز چلائے جائیں تاکہ عوام میں یہ شعور پیدا ہو کہ وہ کس طرح معلومات کی تصدیق کریں، ذرائع کی جانچ کریں، اور بلا سوچے سمجھے مواد کا اشتراک نہ کریں۔
Untitled 2025 10 29T075326.128
اگرچہ پاکستان میں ڈیجیٹل انقلاب نے معلومات تک رسائی کو آسان بنایا ہے، لیکن اسی رفتار سے غلط معلومات اور گمراہ کن بیانیے کے خطرات بھی بڑھ رہے ہیں۔ وقت کی اہمیت اس بات میں ہے کہ ہم معلومات کی تصدیق، عوامی تربیت، اور مؤثر پالیسی مداخلت کے ذریعے اس چیلنج کا سامنا کریں۔ بصورتِ دیگر یہ نہ صرف میڈیا کی آزادی بلکہ قومی تاثر، عوامی اعتماد اور جمہوری عمل پر بھی منفی اثر ڈال سکتا ہے۔

پاکستان کے مستقبل کی بنیاد “سچائی” پر استوار ہونا چاہیے، اور اس کے لیے لازم ہے کہ ہم ڈیجیٹل دور میں برقرار رکھنے کی خاطر معلوماتی زمینی حقائق کو مضبوط کریں۔

Yousf Abid
یوسف عابد

اپنا تبصرہ لکھیں