رانا مقصود افضل ایڈووکیٹ سپریم کورٹ
ڈرگ کورٹ 1976ءکے ڈرگ ایکٹ کے تحت معرض وجود میں آئی۔ ہر صوبہ میں ایک ڈرگ کورٹ کام کرتی تھی،جس کے چیئر مین و ممبران کورٹ کا تقر سیکشن 31 کے تحت فیڈرل گورنمنٹ کرتی تھی، جس میں ریٹائر ہائیکورٹ کے ججز کو بھی چیئرمین کے طور پر تعینات کیا جاتا رہا۔
ڈرگ کورٹس سے وابستہ کیسز کا تعلق میڈیسن/فارماسوٹیکل انڈسٹری سے ہوتا ہے جس سے حکومت اربوں روپے کا ریونیو یا زرمبادلہ حاصل کرتی ہے اور یہ انڈسٹری ملک میں میڈیسن کی ضرویات کو پورا کرنے لیے جان بچانے والی ادویات سے لیکر ہر طرح کے امراض کیلئے ادویات تیار کرتی ہے اور اس انڈسٹری کو پہلے 1976ء کے ڈرگ ایکٹ کے تحت ڈیل کیا جاتا تھا اور اٹھارویں ترمیم کے بعد ڈریپ ایکٹ 2012ءکے تحت فارما انڈسٹری کے معاملات کو ریگولیٹ کیا جاتا ہے، جس میں مزید بہتری کی گنجائش ابھی باقی ہے۔
اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے بعد ڈرگ ایکٹ 1976ء کو صوبائی سبجیکٹ بنا دیا گیا، جس کے بعد پنجاب گورنمنٹ نے ڈرگ ایکٹ 1976ءمیں پنجاب امائنمنٹ کے ایکٹ سے ترمیم متعارف کروائیں۔ جس کے بعد پہلی مرتبہ فیڈرل گورنمنٹ کی بجائے صوبائی حکومت نے لاہور، ملتان، بہاولپور، گوجرانولہ، فیصل آباد اور راولپنڈی میں ڈرگ کورٹس قائم کیں۔ جہاں سے سیاسی تعیناتیوں کا آغاز ہوا۔ جو کہ 1999ء سے لیکر 2016ء تک برقرار رہا جس میں چیف جسٹس ہائیکورٹ سے بھی مشاورت ضروری نہیں سمجھی گئی۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ صوبائی سبجیکٹ ہونے کے باوجود اس عرصہ میں چیئر مین ڈرگ کورٹس کی تعیناتیاں فیڈرل گورنمنٹ ہی کرتی رہی۔ جس کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک فیصلے کی روشنی میں حکومت کو با وقت چیئرمین تعیناتی ڈرگ کورٹس متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے ساتھ مشاورت ضروری قرار دیا گیا۔ جس کے بعد بد قسمتی سے جو ڈیشل ایکٹوازم نے اپنا کام دکھانا شروع کر دیا اور تمام تعیناتیوں میں حکومت کے کردار کو عدلیہ نے ختم کر دیا. اب محض چیف جسٹس ہائیکورٹ نے خود ہی ڈرگ کورٹس کے چیئرمینوں کیلئے بغیر کسی میرٹ وانٹر ویو ٹیسٹ اپنے چمبر زو دوستوں کو نوازتے ہوئے بطور چیئر مین تعینات کرنا شروع کر دیا اور حکومت کو محض ربڑ سٹیمپ کے طور پر استعمال کیا جانے لگا اور وہ محض تعیناتی کا حکم جاری کرنے لئے رہ گئی.
جس سے مختلف ڈرگ کورٹس کے چیئر مینوں نے قانون ڈرگ ایکٹ 1976ء د پنجاب ڈرگ رولز 2007ء کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی مرضی سے فیصلہ جات صادر کرنے شروع کر دیئے۔ جس سے قانون ڈرگ ایکٹ 1976ء و پنجاب ڈرگ رولز 2007ء پر عملدرآمد نہیں ہوا بلکہ چند ایک چیئر مین ڈرگ کورٹس نے اپنی رائے کو ہی قانون کا درجہ دے دیا، جس سے بجائے مجرموں کو قانون کے مطابق سزاملتی اور بے گناہ افراد کو بری کیا جاتا جو کہ قانون کی منشا تھی، بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوا اور اس میں صوبائی حکومت کےمحکمہ صحت نے بھی اپنا حصہ ڈالا کہ انہوں نے بھی ممبران ڈرگ کورٹس جو کہ قانون ڈرگ ایکٹ 1976ء کے سیکشن 31 کے مطابق اپنے فیلڈ یعنی میڈیکل/فارمیسی میں تعینات ہونا چاہیے تھا، ان کی جگہ محکمہ صحت نے اپنے ہی فیلڈ میں کام کرنے والے ڈرگ انسپکٹروں کو تمام ڈرگ کورٹس میں بطورممبر تعینات کردیا، اب وہی ڈرگ انسپکٹر جو کہ فیلڈ میں چالان کرتے ہیں اور انہیں کا بھائی عدالت میں بطور ممبر اسے سن رہا ہوتا ہے اور فیصلہ کر رہا ہوتا ہے.
اس صورت میں ملزموں کے ساتھ کسی طور بھی انصاف نہیں ہو سکتا ہے جبکہ میڈیکل سپیشلسٹ ممبر تعینات کرنے کی بجائے محکمہ صحت نے محض ایک میڈیکل آفیسر کو ممبر تعینات کر دیا، جس کا ڈرگ ایکٹ 1976ء کا کوئی تجربہ ہی نہیں ہے جبکہ ماضی میں یونیورسٹی و میڈیکل کالجز کے سیینئر پروفیسر زکو ان عدالتوں میں بطور ممبر تعینات کیا جاتا رہا ہے۔
پنجاب حکومت اسمبلی میں ڈرگ کورٹس کی تشکیل نو کیلئے جو بل پیش کرنے جارہی ہے، اس سے امید کی جاسکتی ہے کہ انصاف کی فراہمی ہوگی کیونکہ اس بل کے مطابق اب چیئرمین ڈرگ کورٹس کے عہدے پر چیف جسٹس ہائیکورٹ سیشن جج کو تین سال کیلئے بطور چیئر مین تعینات کرے گا، مزید یہ کہ صوبائی حکومت سیکشن 31 ڈرگ ایکٹ 1976ء کے مطابق ممبران کو تعینات کرے گی، جن کا تجربہ متعلقہ فیلڈ میں 15 سال ہوگا اور یہ ممبران، چیئرمین کے ساتھ مل کر فیصلہ صادرکریں گے اور ان ممبران کی تعیناتی بھی تین سال کیلئے ہوگی۔ بظاہر تو یہ بل جس صورت میں تیار کیا گیا ہے اس سے امید کی جانی چاہئے کہ اس سے ڈرگ کورٹس کے کیسز میں بہتری آئے گی اور اس طریقہ کار سے ڈرگ کورٹس پر اثر انداز ہونے کے عمل کی حوصلہ شکنی ہوگی۔
تاہم چیف جسٹس ہائیکورٹ سے گذارش ہے کہ وہ ان عدالتوں کے سپروائزری ججز کو ہدایات جاری کریں کہ وہ ان عدالتوں کی کارکردگی کو باقاعدگی سے مانیٹر کریں، اس طرح صحیح گنہگاروں کو سزا ہو سکے اور بے گناہ افراد انصاف حاصل کر سکیں، کیونکہ ڈرگ ایکٹ 1976ء ایک سپیشل لاء ہے اوراس میں دیئے گئے طریقہ کار پر عمل کیا جائے تو ہی اس سے انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے۔
سینیئر قانون دان ہیں اور ڈرگ کیسسز کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔