فیاض احمد اعوان
زبان، ادب اور ثقافت کسی معاشرے کی روح ہیں۔یہی عناصر کسی خطے کی پہچان اور تہذیبی بقا کا نشان بنتے ہیں۔سرائیکی، پنجابی اور ہریانوی زبانیں اس دھرتی کے لہجوں، محبتوں اور احساسات کا عکس ہیں۔یہ بولیاں انسان اور مٹی کے درمیان ایک جذباتی رشتہ قائم رکھتی ہیں۔وسیب کی زبانوں، ادب اور ثقافت پر نظر ڈالیںتو سرائیکی، پنجابی اور ہریانوی زبان و ادب اور ثقافتی ورثے کی بولیاں، کہانیاں، گیت، یہ سب ہماری پہچان اور ہماری جڑیں ہیں۔سرائیکی کی مٹھاس، پنجابی کی گرمی،اور ہریانوی کی شوخی۔یہ سب مل کر پاکستان کی ثقافت کو زندہ رکھتے ہیں۔زبان صرف بات کرنے کا ذریعہ نہیں،یہ دلوں کا رشتہ ہے، مٹی کی خوشبو ہے،اور یہ ہمارا ثقافتی ورثہ ہے۔اپنے ورثے سے جُڑیں،اپنی بولی کو سنبھالنے اور اپنی ثقافت کو منانے اور اس سے جڑے رہنے کے ساتھ اپنی نئی نسل کو بھی اس کی اہمیت دلانے کی ضرورت ہے.


راقم الحروف سمجھتا ہے کہ ملتان ٹی ہاؤس اپنے اس خطے کی ثقافت، زبان اور ادب کا ترجمان ہے۔ یہ صرف ایک عمارت نہیں بلکہ ایک فکری سنگھاسن ہے جہاں محبت، اظہار اور تخلیق کے چراغ ہمیشہ روشن رہتے ہیں۔ ملتان ٹی ہاؤس وسیب کے اہلِ قلم کا دل ہے،جہاں ہر لفظ مٹی کی خوشبو میں گوندھا جاتا ہے۔ملتان ٹی ہاؤس اس شہر کے ادیبوں، دانشوروں، کالم نگاروں اور تخلیق کاروں کا گھر ہے۔اس لئے تمام پڑھے لکھے لوگوں یہاں آئیں، بیٹھا کریں،اپنی گفتگو کی خوشبو پھیلائیں تاکہ ہم جیسے طالب علم اس سے مستفید ہو سکیں۔جب علم سے روشن چہرے یہاں آتے ہیں تو یہ گھر لفظوں، باتوں اور خیالوں سے جگمگاتا ہے۔
درحقیقت نوجوان نسل اگر اپنی بولیوں، اپنی ثقافت اور اپنے اظہار کو اپنائے تو وسیب کی پہچان ہمیشہ زندہ رہے گی۔علاقائی زبانوں کے فروغ کے لیے تحقیق، تخلیق اور باہمی تعاون کو ادبی و تعلیمی سطح پر مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بولیاں ہماری تہذیبی روح ہیں،اور ان کا تحفظ ہی ہمارے ادبی مستقبل کی ضمانت ہے۔مٹی کی خوشبو، لہجے کی مٹھاس، وسیب کی پہچان، اور لفظوں کا احساس اس خطے کی ثقافت کو مزید معتبر کرتا ہے.

