خالد محمود قریشی
پاکستان کے شمالی جنگلات، خاص طور پر ہمالیہ اور ہندوکش کی برف پوش وادیوں میں، کالا ریچھ ایک قدرتی خزانے کی مانند پایا جاتا ہے۔ یہ معصوم جانور نہ صرف ہمارے ماحولیاتی توازن کا حصہ ہے، بلکہ قدرت کا ایک دلکش شاہکار بھی ہے۔ مادہ کالا ریچھ اپنی اولاد سے بے پناہ محبت کرتی ہے، اتنی کہ جب تک بچے آنکھیں نہ کھولیں، وہ انہیں اپنی گرم جسم سے ڈھانپے رکھتی ہے، انہیں لمحہ بھر کے لیے تنہا نہیں چھوڑتی۔
مگر انسان کی لالچ، سفاکی اور ظالمانہ شوق نے اس محبت کو بھی خون میں ڈبو دیا ہے۔
مقامی افراد چند روپے یا تھوڑی سی رقم کے لالچ میں شکاریوں کو مادہ ریچھ کے ٹھکانے بتا دیتے ہیں۔ شکاری موقع پا کر مادہ ریچھ کو گولی مار دیتے ہیں اور اس کے سہمے ہوئے، معصوم بچوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ پھر شروع ہوتا ہے اذیت کا وہ سلسلہ جو انسانیت کے ماتھے پر ایک بدنما داغ ہے۔
ریچھ کے بچے کو گرم توے پر کھڑا کر کے چھڑیوں سے پیٹا جاتا ہے۔ وہ ہر بار چھڑی دیکھ کر توا یاد کرتا ہے، وہ جلتا گوشت، وہ پگھلتی کھال، اور پھر "ناچ” کہلانے والی وہ حرکت دہرا دیتا ہے — جو درحقیقت صرف درد کی یاد میں ہونے والا ردعمل ہے۔ اس کے ناخن اور دانت نکال دیے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنے دفاع کی طاقت کھو بیٹھے۔ اس کی ناک میں سوراخ کر کے نکیل ڈالی جاتی ہے، تاکہ وہ ہمیشہ غلام بنا رہے۔
پھر یہ جانور سڑکوں، میلوں، چوراہوں اور دروازوں پر بھیک کا ذریعہ بن جاتا ہے — کیلا، روٹی، دودھ ملتا ہے لیکن قدرتی غذا، آزادی، اور وقار چھن جاتے ہیں۔
یہ برفانی علاقوں کا باسی ہے، جہاں درختوں کی چھاؤں اور یخ بستہ ہوائیں اس کا اصل ماحول ہیں۔ مگر وہ اب دھوپ میں ہانپتا ہے، شور میں کانپتا ہے، اور انسانوں کے تماشے کے لیے ناچتا ہے۔
آج یہ مظلوم جانور ہماری جنگلات سے تقریباً ناپید ہو چکا ہے۔ اس کی نسل تیزی سے ختم ہو رہی ہے — اور اس کا ذمہ دار صرف اور صرف ہم انسان ہیں۔
خدارا!
اس معصوم جانور پر مزید ظلم نہ کریں۔
ریچھ کو تماشے اور بھیک کا ذریعہ بنانے والوں کو پیسے نہیں دیں۔
یہ ظلم بند کریں، کیونکہ خاموش ریچھ کی یہ سسکیاں ایک دن فطرت کا انتقام بن کر لوٹ سکتی ہیں۔
یہ سوال ہمارے ضمیر پر ہے:
کیا ہم واقعی انسان ہیں؟
اینیمل سیو موومنٹ پاکستان