سید خالد جاوید بخاری
سوہن حلوہ — ملتان کی وہ مٹھائی جس کا ذکر ہوا تو ذہن میں سردیوں کی ٹھنڈ اور محبت بھری تحفوں کا دربار اُبھر آتا ہے۔ مسلمانوں کے شہر کی سُنتوں والی فضاؤں میں اس کی خوشبو، آپسی محبت اور ثقافتی شناخت کا مرقع ہے۔ اس کی منفرد نوعیت کا راز سبز آٹا (انگوری یا sprouted wheat flour)، کی خوشبو، نرمی اور ساخت میں پنہاں ہے۔
سبز آٹا، ملتان کا چھپا ہوا ثقافتی ورثہ ہے، جو ملتان کے روایتی کارخانوں، خاص طور پر محلہ کوئلہ تولے خانہ کے بچر خانہ کے پاس چھوٹے ٹھیک ٹھاک کارخانوں میں، سبز آٹا تیار ہوتا آیا ہے۔ یہ انگوری یا sprouted wheat flour، عام میدہ اور گندم کے آٹے کے ملاپ میں شامل ہوتا ہے، جو سوہن حلوہ کو مخصوص ساخت اور خوشبو عطا کرتا ہے۔ مائع دودھ، شکر، گھی، اور اس آٹے کا امتزاج، آہستہ آہستہ گاڑھا ہو کر حلوہ بن جاتا ہے—جس میں بادام، کاجو، پستہ اور الائچی اس کی شان چمکاتے ہیں۔
سوہن حلوہ تیاری کا عمل تین آٹے — سبز آٹا، میدہ، اور گندم کے آٹے — کے امتزاج سے شروع ہوتا ہے۔ اسے ایک مقامی لکڑی کی خُرُفی (khurphi) سے مسلسل سات سے آٹھ گھنٹوں تک ہلاتے ہیں، جب تک گاڑھا نہ ہو جائے۔ بعد میں شکر، گھی، اور خشک میوے شامل کرکے اسے تھالیوں میں جما کر ٹھنڈا کیا جاتا ہے۔
ایک مشہور روایت کے مطابق، ایک ہندو مربّی "سوہن” نے ایک دن پھٹا دودھ گاڑھا کرکے اس میں آٹا ملا دیا۔ یہ آزمائش مٹھائی میں بدل گئی اور لوگوں نے اسے اس کے نام سے منسوب کر دیا۔بعض روایتوں کے مطابق، سوہن حلوہ کو سب سے زیادہ شہرت دیوان ساون مل (1821 میں ملتان کے گورنر) کے دربار نے دی — کچھ صاحبِ نظر اسے اختراع.nuanced کرنے کا ذریعہ مانتے ہیں، جبکہ دیگر اسے محض شہرت کا سبب قرار دیتے ہیں۔ایک قابلِ غور زاویہ یہ بھی ہے کہ ایران کے شہر قم میں "Sohan” نامی ایک مٹھائی تھی — خشک اور کرسٹل نما۔ ملتان میں دورِ مغلیہ سے تاجر اور زائرین نے اسے متعارف کرایا، اور ملتان نے اسے اپنی ساخت اور ذائقہ دئیے۔
یہ بھی روایت ہے کہ سوہن حلوہ پہلے گھروں میں بنتا تھا — خاص کر سردیوں میں، بیاہوں کی تحفہ میں۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ خانگی روایت بن کر تجارتی چہرہ بن گئی۔ محلے کی چھوٹی دہلیز سے لے کر حافظ خاندان تک قدم جب بڑھا، تو ایک شاندار برانڈ “Hafiz Sohan Halwa” کی صورت میں سامنے آیا۔حافظ آباد دین نے 1945ء ،میںابتداء میں اپنے شاگردوں کے لیے سوہن حلوہ بنایا۔ اس کی خوبصورتی اور کیفیت نے اسے جلدی شہر کی محبت بنا دیا۔ان کے داماد حافظ حبیب الرحمن نے 1963ء ملتان کی روایت کو بڑھاوا دیتے ہوئے حسین آگاہی بازار میں اپنا برانڈ قائم کیا — یوں "حافظ سوہن حلوہ” ایک ملک گیر برانڈ بن گیا، جو آج بھی دہلیزِ وطن سے دور پڑوس تک پہچتا ہے۔
سوہن حلوہ ملتان کی شناخت کا لازمی جزو ہو چکا ہے — محض سردیوں کی مٹھائی نہیں، بلکہ "ملتان کی علامت” اور مغرب سے مشرق، ہر چرخی میں سوہن حلوہ کی آہٹ بکھری پڑی ہے۔ "سوہن حلوہ کو صوفی شہر ملتان کا تحفہ” کہا جانا اس کی شناخت کی شہرت کو ظاہر کرتا ہے۔
سوہن حلوہ، خاص طور پر ملتان کا ورژن، ایک ایسی داستان ہے جس نے اشراق، فن، روایات، اور تجارتی شگفتگی کو ایک مٹھاس میں گھُلایا ہے۔ اس کی تاریخ میں ھندو کوجن کی آزمائشیں، ایرانی تاثیر کی چمک، اور حافظ خاندان کی محنت سب کی بازگشت ہے۔سبز آٹا — انگلیوں سے قدرتی، لذت سے بھرپور — ایک راز ہے جو سوہن حلوہ کو اس کی پہچان دیتا ہے۔ یہ مٹی کی زمین کی خوشبو میں اُگا، تاریخ کی محفلوں سے نکلا اور آج دلوں کی میزبان بنتا ہے۔
سینیئر قانون دان ہیں اور مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔