سید خالد جاوید بخاری
پاکستان کی سرزمین اپنی جغرافیائی اور تہذیبی تاریخ کے اعتبار سے دریاؤں کی سرزمین کہلاتی ہے۔ "پنجاب” خود اپنے نام میں پانچ دریاؤں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ان دریاؤں نے نہ صرف وادیٔ سندھ کی تہذیب کو جنم دیا بلکہ آج بھی پاکستان کی زراعت، معیشت، ثقافت اور طرزِ زندگی میں ان کا کردار مرکزی ہے۔ دریاؤں کے نام اپنے اندر لسانی، تاریخی اور مذہبی پس منظر رکھتے ہیں جن کا مطالعہ ہمارے ماضی کی جھلک دکھاتا ہے۔
پاکستان کے بڑے دریاؤں میںدریائے سندھ (Indus) لفظ "سندھ” سنسکرت کے لفظ Sindhu سے ماخوذ ہے جس کے معنی "سمندر، بڑی ندی یا دریا” کے ہیں۔ ایرانی زبان میں یہ ہندو اور بعد میں یونانی زبان میں Indos بنا، جس سے "انڈیا” کا نام نکلا۔یہ پاکستان کا سب سے بڑا اور طویل دریا ہے، جو تبت کے علاقے سے نکلتا ہے اور کراچی کے قریب بحیرۂ عرب میں جا گرتا ہے۔ وادیٔ سندھ کی تہذیب اسی دریا کے کنارے پروان چڑھی۔
دریائے جہلم دراصل سنسکرت کے لفظ Vitasta سے ماخوذ ہے۔ بعد میں فارسی و مقامی بولیوں میں یہ "جہلم” کہلایا۔ ایک روایت کے مطابق جہلم کا مطلب "برف پگھلنے والا پانی” ہے کیونکہ یہ دریا کشمیر کی پہاڑیوں سے نکلتا ہے۔ یہ پنجاب کے پانچ دریاؤں میں سب سے مغربی دریا ہے اور منگلا ڈیم اسی پر بنایا گیا ہے۔
دریائے چناب کو سنسکرت میں Asikni کہا جاتا تھا جس کا مطلب "کالا پانی” ہے۔ بعد میں فارسی و مقامی روایات میں "چناب” بنا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ لفظ "چندر آب” (چاند کا پانی) سے ماخوذ ہے۔یہ دریا ہندوستان کے ہمالیہ سے نکل کر پنجاب کے وسطی علاقے سے گزرتا ہے اور اپنی زرخیزی کے سبب مشہور ہے۔
دریائے راوی کا قدیم نام سنسکرت میں Iravati تھا۔ بعد میں مقامی زبانوں میں یہ "راوی” بنا۔ "راوی” کا مطلب ہے "آب رواں” یا "تیز بہنے والا پانی”۔یہ دریا لاہور کے قریب سے گزرتا ہے اور تاریخی لحاظ سے صوفیاء کرام اور مغل دور کی اہم داستانوں کا گواہ ہے۔
دریائے ستلج کانام سنسکرت میں اسے Shutudri کہا جاتا تھا۔ بعد میں یہ "ستلج” بنا۔ "ستو” کا مطلب "سات” اور "دری” کا مطلب "نہر یا دھارا” ہے، یعنی "سات دھاروں والا دریا”۔ یہ دریا پنجاب کے مشرقی علاقے سے گزرتا ہے اور آج کل زیادہ تر پانی بھارت کی طرف موڑا جا چکا ہے۔
دریائے کابل کا نام افغانستان کے دارالحکومت کابل سے منسوب ہے۔ یہ دریا دراصل پہاڑی چشموں اور برفانی علاقوں سے نکلتا ہے۔یہ دریا خیبر پختونخوا کے علاقوں کو سیراب کرتا ہے اور اٹک کے مقام پر دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔
دیگر اہم دریاؤںمیںدریائے سوات کا نام قدیم سنسکرت "سواد” (دلکش وادی) سے جڑا ہے۔دریائے گومل بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے گزرتا ہے۔ "گومل” پشتو کے لفظ سے لیا گیا ہے جس کا مطلب "اونچی جگہ سے بہنے والا پانی” ہے۔دریائے ہنگول بلوچستان میں بہنے والا دریا، جس کا نام مقامی بلوچ قبیلے یا خطے سے منسوب ہے۔
پاکستان کا آئین 1973ء پانی کو قومی اہمیت کا حامل معاملہ قرار دیتا ہے۔آرٹیکل 153 تا 155: مشترکہ مفادات کونسل کو دریاؤں کے پانی کی تقسیم کے فیصلوں کا اختیار دیتا ہے۔انڈس واٹر ٹریٹی 1960ء، پاکستان اور بھارت کے درمیان دریاؤں کے پانی کی تقسیم کا معاہدہ ہے جس کے تحت بیاس، ستلج اور راوی بھارت کو جبکہ سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کو دیے گئے۔دریاؤں کے پانی کی تقسیم کے حوالے سے صوبوں میں اختلافات پائے جاتے ہیں، جنہیں آئینی ادارے حل کرتے ہیں۔
دریائے سندھ کو وادیٔ سندھ کی تہذیب میں مذہبی درجہ حاصل تھا۔چناب، راوی اور جہلم پنجابی لوک کہانیوں (ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی ماہیوال) میں لازوال کردار رکھتے ہیں۔دریائے ستلج اور بیاس سکھ تاریخ میں مقدس تصور کیے جاتے ہیں۔
پاکستان کے دریا محض پانی کے ذخائر نہیں بلکہ تہذیب، تاریخ، ثقافت اور معیشت کے ستون ہیں۔ ان کے نام اور معانی ہماری قدیم روایات، زبانوں اور مذہبی تصورات سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان دریاؤں کی بقا اور بہتر انتظام قومی بقا کے مترادف ہے، کیونکہ یہی دریا پاکستان کی زراعت اور زندگی کے ضامن ہیں۔
حوالہ جات و ریفرنسز:
1. سرجان مارشل، موہنجو داڑو اینڈ دی انڈس سیولائزیشن، لندن، 1931۔
2. ڈاکٹر مبارک علی، تاریخِ پنجاب، لاہور، 2005۔
3. انڈس واٹر ٹریٹی، 1960، معاہدۂ کراچی۔
4. آئینِ پاکستان 1973ء، دفعات 153-155۔
5. ڈاکٹر کیفیات حسین، پاکستان کے دریاؤں کی جغرافیائی و تاریخی اہمیت، کراچی یونیورسٹی، 2018
سینیئر قانون دان ہیں اور مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں۔


